محمد اسد ملک پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق ہاکی اولمپیئن و سابق کپتان قومی ہاکی ٹیم تھے.

احمت عبد العزیز کا بنایا ہوا محمد اسد ملک کا سکیچ (2015).

پیدائش ترمیم

30 اکتوبر 1941ء کو پیدا ہوئے۔ [1]

عملی زندگی ترمیم

اسد ملک پاکستان ہاکی ٹیم کا حصہ رہے. وہ ٹوکیو اولمپکس 1964ء میں نقرئی تمغا، میکسیکو اولمپکس 1968ء میں طلائی تمغا، میونخ اولمپکس 1972ء میں نقرئی تمعہ، جکارتہ کے ایشین گیمز 1962ء میں طلائی تمغا، بنکاک میں ہونے والے ایشین گیمز 1966ء میں نقرئی تمغا اور بنکاک میں ہونے والے ایشین گیمز 1970ء میں طلائی تمغا جیتنے والی پاکستان ہاکی ٹیم کا حصہ تھے۔[2]

اسد ملک نے نے اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز دسمبر 1961ء میں ملائیشیا کے خلاف کھیلتے ہوئے کیا تھا۔ 1961ء سے 1972ء تک انھوں نے 121 بین الاقوامی میچوں میں 41 گول کیے۔

جب پاکستان نے 1971ء میں اولین ہاکی ورلڈ کپ جیتا تو اس وقت وہ ٹیم کے نائب کپتان تھے۔

محمد اسد ملک پاکستان کے پہلے کھلاڑی تھے جن کی تصویر ڈاک ٹکٹوں کی زینت بنی۔ 1968ء کے میکسیکو سٹی اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم کی طرف سے میں طلائی تمغا جیتنے کے بعد ایک روپے مالیت کا خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا جس پر اسد ملک کی کھیلتے ہوئے تصویر تھی.

حکومت پاکستان نے 14 اگست 1969ء کو انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا. [3]

وہ 1968ء میں میکسیکو اولمپکس جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے بھی نائب کپتان تھے۔ ان مقابلوں میں ان کی کارکردگی قابل ذکر رہی تھی۔ انھوں نے پانچ گول کیے جو رشید جونیئر کے سات اور تنویر ڈار کے چھ گولوں کے بعد تیسرے نمبر پر تھے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف فائنل میچ میں پاکستان انہی کے ریورس فلک گول کے ذریعے اولمپک چیمپیئن بنا تھا۔

14 فروری 1966ء کو جب جنرل موسٰی نے کراچی کے ہاکی کلب آف پاکستان اسٹیڈیم کا افتتاح کیا تو اس موقع پر کھیلے گئے میچ میں اسد ملک نے ہی کراچی کمبائنڈ کی طرف سے پاکستان ریسٹ الیون کے خلاف فیصلہ کن گول کیا تھا۔

1972ء کے میونخ اولمپکس میں وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے۔ مغربی جرمنی کے خلاف فائنل میں پاکستانی ٹیم کو امپائرنگ سے بڑی شکایت رہی اور فائنل ہارنے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے تمغے لیتے وقت نامناسب انداز اختیار کیا. اس پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے اسد ملک اور دیگر 12 کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی عائد کر دی۔

اسد ملک اس کے بعد دوبارہ پاکستان کی طرف سے نہیں کھیلے۔

اسد ملک ایشیائی اور ورلڈ الیون میں بھی شامل رہے۔ وہ پاکستان اے ہاکی ٹیم کے کوچ اور انڈر 19 ٹیم کے منیجر بھی رہے۔[4]

ہاکی فیملی ترمیم

اسد ملک کا تعلق ایک ہاکی فیملی سے تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی اولمپئین سعید انور کے علاوہ بھتیجے انجم سعید اور نعیم امجد بھی اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ یہ پاکستان کی واحد فیملی ہے جس کے چار افراد نے اولمپکس میں پاکستنان کی نمائندگی کر رکھی ہے.[5]

وفات ترمیم

27 جولائی 2020ء کو اسد ملک اپنی بیٹی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بازار جا رہے تھے کہ فیض پور انٹرچینج لاہور حادثہ پیش آ گیا جس پر اسد ملک موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ ان کی بیٹی جو شدید زخمی ہو گئی تھی انھیں علاج کے لیے میو ہسپتال لاہور بھجوا دیا گیا تاہم بعد ازاں ان کی بیٹی کو میو ہسپتال سے شالامار ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اسد ملک کی نماز جنازہ اگلے روز منگل کو بعد نماز ظہر جناح پارک شیخوپورہ میں ادا کی گئی،[6]

حوالہ جات ترمیم

حوالہ جات