اسرائیل منگولیا تعلقات

دونوں ممالک کے باہمی تعلقات

اسرائیل منگولیا تعلقات سے مراد وہ دو طرفہ تعلقات ہیں جو اسرائیل اور منگولیا کے بیچ جدید دور میں دیکھے گئے ہیں۔ ماضی میں منگولیا اسرائیل کے لیے منفی نظریہ رکھتا تھا۔ اس نے ایک اقوام متحدہ کی قرارداد کی تائید بھی کی تھی جس سے صیہونیت کو نسل پرستی کے مساوی قرار دیا گیا تھا۔ مگر یہ منفی رویہ پچھلی کئی دہائیوں میں بدل چکا ہے۔ چنانچہ 1990ء کے دہے میں یہی منگولیا نے صیہونیت کے خلاف سابقہ قرارداد کو الٹنے کے لیے ووٹ کرنے تیار ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مصر اور کچھ دیگر عرب اور مسلمان ممالک اسرائیل کی عدم اسلحہ بندی کی قرارداد لے آئے تھے، تب منگولیا نے اس کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ووٹ دینے سے احتراز کیا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ خوش گوار تعلقات کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ دو ممالک ایک دوسرے کے مسافرین پر ویزا کا لزوم نہیں کرتے۔ ہر سال کم سے کم سو اسرائیلی شہری منگولیا میں سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔ چوں کہ منگولیا زیادہ تر خانہ بدوشوں کا ملک ہے، اس لیے یہ لوگ شامیانوں اور کھلے میدانوں میں کیمپنگ کرتے ہیں اور ملک کی آب و ہوا سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ویزا سے استثنٰی ہونے کی وجہ سے جو منگول اسرائیل پہنچتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگ نہ تو کوئی ہوٹل میں بُکنگ کروائے ہوئے ہوتے ہیں اور نہ اپنے ساتھ خود کی کفالت کے لیے خاطر خواہ پیسہ رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ طیران گاہ ہی سے ملک سے واپس بھیجے جاتے ہیں۔ جو اتفاق سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ اسرائیل میں غیر قانونی مزدور بن کر رہتے ہیں، انھیں کسی قسم کا قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی وقت ملک سے نکالے جا سکتے ہیں۔ [1]

اسرائیل منگولیا تعلقات

اسرائیل

منگولیا

معیشت کا استحکام اور اسرائیلی شراکت داری کے امکانات ترمیم

منگولیا کئی قدرتی وسائل سے ملامال ہے۔ اس کے پاس تیل، کوئلہ، سونا، چاندی، کانسی (جس کے فراہم کنندہ ملکوں میں منگولیا اولین مقامات سے ایک رکھتا ہے)، لوہا اور کئی قدرتی وسائل رکھتا ہے۔ مگر یہ ملک زیادہ تر خانہ بدوشوں کا ملک ہے۔ یہاں پر صنعتی فروغ کا بنیادی ڈھانچا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی سردیاں اور گرمیاں اپنی الگ ہی شدت کے مقام تک پہنچتی ہیں۔ دار الحکومت اولان‌ باتور کا درجۂ حرارت -26 سیلسیس تک گر جاتا ہے۔ ان وجہوں سے صنعتیانے کا عمل تیزی آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ اس کے باوجود 2003ء کے وسط تک بھی اسرائیل کے ساتھ کاروبار $279,000 تک پہنچ گیا تھا۔ اسرائیل منگولیا سے اون، اونٹ کے بال، لیدر اور فر کو حاصل کرتا ہے۔[1]

جن باتوں میں منگولیا اسرائیل سے تعاون چاہتا ہے ترمیم

منگولیا اسرائیل سے فوجی ساز و سامان، ہتھیار، اعلیٰ تعلیم، تکنیکی اور بنیادی ڈھانچے کے توسیع کرنے کے معاملوں میں تعاون چاہتا ہے۔[1]

اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ترمیم

اسرائیلی حکومت کی دعوت پر منگولیا کے وزیر خارجہ ٹی ایس مونکھ اورگیل اگست 2007ء میں آئے۔ انھوں نے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کی اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر گفتگو کی۔[2]

حوالہ جات ترمیم