اسلامی نظریاتی کونسل
اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کا آئینی ادارہ ہے۔ 1973ء کے آئین میں جب شق نمبر 227 شامل کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائے گا تو عملاً اس کا باقاعدہ نظام وضع کرنے کی غرض سے اسی آئین میں دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی اکثریت کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کی اسلامی حیثیت کا جائزہ لے کر 15 دنوں کے اندر اندر انھیں اپنی رپورٹ پیش کرنا تھا۔ شق نمبر 228 میں یہ قرار دیا گیا کہ اس کے اراکین میں جہاں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ضروری ہوگی وہاں اس کے کم از کم چار ارکان ایسے ہوں گے جنھوں نے اسلامی تعلیم و تحقیق میں کم وبیش 15 برس لگائے ہو اور انھیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد حاصل ہو۔
کام
ترمیم- ایسے قوانین کی توثیق کرنا جو قرآن و سنت کے روشنی میں ہو۔
- وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کو اسلام کے مطابق سفارشات کرنا۔
ابتدائی اراکین
ترمیماسلامی نظریاتی کونسل جب بنا اس وقت درج ذیل اراکین تھے :[1]
- جسٹس ابوصالح محمد اکرم، جج وفاقی ہائی کورٹ
- جسٹس محمد شریف، سابقہ جج وفاقی ہائی کورٹ
- مولانا اکرم خان
- مولانا عبد الحامد
- مولانا حافظ کفایت حسین،
- ڈاکٹر آئی ایچ قریشی
- مولانا عبد الہاشم
- سید نجم الحسن
موجودہ اراکین
ترمیم- ڈاکٹر قبلہ ایاز موجودہ چیئرمین ہیں
- ڈاکٹر قاری عبد الرشید (تمغا امتیاز) ۔ ممبر۔ بلوچستان
- ملک اللہ بخش کلیار۔ ممبر۔ پنجاب
- مولاناحافظ فضل رحیم۔ ممبر۔ پنجاب
- مولانا امدداللہ یوسفزئی۔ممبر۔سندھ
- ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، رکن حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان