اسلام اور تبنیت
عربوں میں اسلام سے قبل کی رسموں میں سے ایک اور رسم یہ بھی تھی کہ منہ بولے بیٹے (متبنی) کو وہاں پر حقیقی بیٹا سمجھ لیا جاتا اور اس پرحقیقی بیٹے کے احکام جاری کر دیے جاتے۔ اسی لیے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جاہلی رسم کو مٹانے اور عملی طور پر اس کی تردید کے لیے اپنے متبنیٰ زید بن حارثہ (یہ حضور اقدس ﷺم کے غلام تھے لیکن آپ نے ان کو آزاد فرماکراپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اوراپنی باندی ام ایمن سے ان کا نکاح فرمادیا تھا جن کے بطن سے ان کے صاحبزادے اسامہ بن زید پیدا ہوئے ) کی مطلقہ بیوی زینب بنت جحش سے نکاح فرمایا تو کفار و مشرکین وغیرہ نے اس پر گویا آسمان سر پر اٹھا لیا اور طرح طرح کے الزامات اور اعتراضات گھڑنا اور پھیلانا شروع کردیے۔ تو اس پر ان آیات کریمہ میں اصل حقیقت کو واضح فرمایا گیا اور بتایا گیا کہ لے پالک اور منہ بولے بیٹے محض تمھارے منہ کے کہنے سے اصل اور حقیقی بیٹے نہیں بن جاتے بلکہ انسان کا اصل اور حقیقی بیٹا وہی ہوتا ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو اس کی صلب اور اس کے نطفے سے پیدا ہوا ہو اور بس۔ سو جس طرح کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں ہو سکتے اسی طرح کسی کے دو باپ بھی نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے منہ بولے بیٹے کو اس کے اصل باپ کی نسبت سے بلانے پکارنے کا حکم دیا گیا [1]
- عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ابوحذیفہ بن عتبہ ربیعہ (بدری صحابی) نے سالم کو اپنا بیٹا بنایا اور ان کا نکاح اپنی بھتیجی ہند بن ولید بن عتبہ سے کیا حالانکہ سالم ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی زید کو اپنا بیٹا بنایا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ متبنی کو لوگ اسی کا بیٹا کہہ کر پکارتے اور اسے اس کی میراث میں سے حصہ دیتے۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی تم انھیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہی اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور دوست ہیں الغرض جس کے باپ کے متعلق علم نہ ہو تو وہ دینی بھائی اور دوست ہے۔[2]