ام المؤمنین زینب بنت جحش رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا (عربی: زينب بنت جحش، پیدائش: 593ء) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک تھیں۔

زینب بنت جحش
(عربی میں: زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشِ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 590ء
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 641ء (53 سال عمر در قمری سال)
مدینہ منورہ، سعودی عرب
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش مدینہ منورہ
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات
پہلا شوہر (جو 622ء میں فوت ہو گئے) زید بن حارثہ (طلاق شد) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
والدین جحش بن رباب
اميمہ بنت عبدالمطلب
والد جحش بن رباب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ امیمہ بنت عبد المطلب   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت زوجۃ پیغامبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ام المؤمنین

نام و نسب

زینب نام، ام الحکیم کنیت، قبیلہ قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ، والدہ کا نام امیمہ تھا جو عبد المطلب جد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں، اسی بنا پر زینب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بہن تھیں۔

حلیہ

زینب کوتاہ قامت لیکن خوبصورت اور موزوں اندام تھیں۔[1]

اسلام

نبوت کے ابتدائی دور میں اسلام لائیں، اسد الغالہ میں ہے: "شروع دور اسلام میں اسلام قبول کیا تھا۔"[2] نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کے ساتھ و آپ کے آزاد کردہ غلام اور متبنی تھے ان کا نکاح کر دیا، اسلام نے مساوات کی جو تعلیم رائج کی ہے اور پست و بلند کو جس طرح ایک جگہ لاکھڑا کر دیا ہے، اگرچہ تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سے عملی تعلیم کی بنیاد قائم ہوتی ہے، قریش اور خصوصا خاندان ہاشم کو تولیت کعبہ کی وجہ سے عرب میں جو درجہ حاصل تھا، اس کے لحاظ سے شاہان یمن بھی ان کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتے تھے لیکن اسلام نے محض "تقوی" کو بزرگی کا معیار قرار دیا اور فخر و ادعاء کو جاہلیت کا شعار ٹھہرایا ہے، اس بنا پر اگرچہ زید بظاہر غلام تھے تاہم وہ چونکہ (مسلمان اور مرد صالح تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ زینب کا عقد کر دینے میں کوئی تکلف نہیں ہوا) تعلیم مساوات کے علاوہ اس نکاح کا ایک اور مقصد بھی تھا جو اسد الغابہ میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے: "یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح زید سے اس لیے کیا تھا کہ ان کو قرآن و حدیث کی تعلیم دیں۔"[3] تقریباً ایک سال تک دونوں کا ساتھ رہا، لیکن پھر تعلقات قائم نہ رہ سکے اور شکر رنج پڑھ گئی، زید نے بارگاہ نبوت میں شکایت کی[4] اور طلاق دے دینا چاہا۔: "زید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ زینب مجھ سے زبان درازی کرتی ہیں اور میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔"[5] لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ان کو سمجھاتے تھے کہ طلاق نہ دیں، قرآن مجید میں ہے "اور جبکہ تم اس شخص سے جس پر خدا نے اور تم نے احسان کیا تھا، یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو نکاح میں لیے رہو اور خدا سے خوف کرو۔"

لیکن یہ کسی طرح صحبت برار نہ ہو سکے اور زید نے ان کو طلاق دے دی زینب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہن تھیں۔ اور آپ ہی کی تربیت میں پلی تھیں، آپ کے فرمانے سے انھوں نے یہ رشتہ منظور کر لیا تھا۔ جو ان کے نزدیک ان کے خلافِ شان تھا (چونکہ زید غلام رہ چکے تھے، اس لیے زینب کو یہ نسبت گوارا نہ تھی) بہرحال وہ مطلقہ ہو گئیں تو آپ نے ان کی دلجوئی کے لیے خود ان سے نکاح کر لینا چاہا، لیکن عرب میں اس وقت تک متبنی اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا، اس لیے عام لوگوں کے خیال سے آپ تامل فرماتے تھے، لیکن چونکہ محض یہ جاہلیت کی رسم تھی اور اس کو مٹانا مقصود تھا، اس لیے یہ آیت نازل ہوئی: "اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جس کو خدا ظاہر کر دینے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا خدا سے چاہیے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید سے فرمایا کہ تم زینب کے پاس میرا پیغام لے کر جاؤ، زید ان کے گھر آئے تو وہ آٹا گوندھنے میں مصروف تھیں، چاہا ان کی طرف دیکھیں لیکن پھر کچھ سوچ کر منہ پھیر لیا اور کہا "زینب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لایا ہوں "جواب ملا" میں بغیر استخارہ کیے کوئی رائے قائم نہیں کرتی "یہ کہا اور مصلیٰ پر کھڑی ہو گئیں، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی۔ اور نکاح ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب کے مکان پر تشریف لائے اور بلا استیذان اندر چلے گئے۔ دن چڑھے ولیمہ ہوا جو اسلام کی سادگی کی اصل تصویر تھا اس میں روٹی اور سالن کا انتظام تھا۔ انصار میں ام سلیم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ اور انس کی والدہ تھیں، مالیدہ بھیجا تھا۔ غرض سب چیزیں جمع ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس کو لوگوں کے بلانے کے لیے بھیجا۔ 300 آدمی شریک ہوئے۔ کھانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دس آدمیوں کی ٹولیاں کر دیں تھیں، باری باری آتے اور کھانا کھا کر واپس جاتے تھے۔

اسی دعوت میں آیت حجاب اتری، جس کی وجہ یہ تھی کہ چند آدمی مدعو تھے، کھا کر باتیں کرنے لگے اور اس قدر دیر لگائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرط مروت سے خاموش تھے، باربار اندر جاتے اور باہر آتے تھے، اسی مکان میں زینب بھی بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کا منہ دیوار کی طرف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدورفت کو دیکھ کر بعضوں کو خیال ہوا اور اٹھ کر چلے گئے۔ انس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دوسری ازواج کے مکان میں تھے، اطلاع دی، آپ باہر تشریف لائے تو وحی کی زبان اس طرح گویا ہوئی: "اے ایمان والو! نبی کے گھروں پر مت جایا کرو، مگر جس وقت تم کو کھانے کے لیے اجازت دی جائے، اسی طور پر کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو۔ اور باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو اس بات سے نبی کو ناگواری پیدا ہوتی ہے، سو وہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالی صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا ہے اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ سے باہر مانگو۔"

آپ نے دروازہ پر پردہ لٹکا دیا اور لوگوں کو گھر کے اندر جانے کی ممانعت ہو گئی یہ ذو العقدہ سن پانچ ہجری کا واقعہ ہے۔

زینب کے نکاح کی چند خصوصیتیں ہیں جو کہیں اور نہیں پائی جاتیں، ان کے نکاح سے جاہلیت کی ایک اور رسم کہ متبنی اصلی بیٹے کا حکم رکھتا ہے، مٹ گئی، مساوات اسلامی کا وہ عظیم منظر سامنے آیا کہ آزاد کردہ غلام کی تمیز اٹھ گئی، پردہ کا حکم ہوا۔ نکاح کے لیے وحی الہی آئی۔ ولیمہ میں تکلف ہوا، اسی بنا پر زینب اور ازواج کے مقابلہ میں فخر کیا کرتی تھیں۔[6] ازواج مطہرات میں جو بیبیاں عائشہ کی ہمسری کا دعوی رکھتی تھیں، ان میں زینب خصوصیت کے ساتھ ممتاز تھیں، خود عائشہ کہتی ہیں: "ازواج میں سے وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں عزت و مرتبہ میں میرا مقابلہ کرتی تھیں۔"[7]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کی خاطرداری منظور رہتی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب چند ازواج نے فاطمہ زہرا کو سفیر بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا اور وہ ناکام واپس آئیں، تو سب نے اس خدمت (سفارت) کے لیے زینب کا انتخاب کیا کیونکہ وہ اس خدمت کے لیے زیادہ موزوں تھیں، انھوں نے بڑی دیدہ دلیری سے پیغام ادا کیا اور بڑے زور کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہا کہ عائشہ اس رتبہ کی مستحق نہیں ہیں، عائشہ چپ ہو کر سن رہی تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھتی جاتی تھیں، زینب جب تقریر کر چکیں تو عائشہ مرضی پا کر کھڑی ہوئیں اور اس زور شور کے ساتھ تقریر کی کہ زینب لاجواب ہو کر رہ گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کیوں نہ ہو ابوبکر کی بیٹی ہے۔"[8]

فضل و کمال

رواتیں کم کرتی تھیں، کتب حدیث میں ان سے صرف گیارہ رواتیں منقول ہیں، راویوں میں ام حبیبہ، زینب بنت ابی سلمہ، محمد بن عبد اللہ بن حجش (برادرزادہ) کلثوم بنت طلق اور مذکور (غلام) داخل ہیں۔

اخلاق

ام سلمہ فرماتی ہیں: "یعنی زینب نیک خو، روزہ دار و نماز گزار تھیں۔"[9] عائشہ فرماتی ہیں: "میں نے کوئی عورت زینب سے زیادہ دیندار، زیادہ پرہیزگار، زیادہ راست گفتار، زیادہ فیاض، مخیر اور خدا کی رضا جوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی فقط مزاج میں ذرا تیزی تھی جس پر ان کو بہت جلد ندامت بھی ہوتی تھی۔"[10] زینب کا زہد و ورع میں یہ حال تھا۔ کہ جب عائشہ پر اتہام لگایا گیا اور اس اتہام میں خود زینب کی بہن حمنہ شریک تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عائشہ کی اخلاقی حالت دریافت کی تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا: "مجھ کو عائشہ کی بھلائی کے سوا کسی چیز کا علم نہیں۔" عائشہ کو ان کے اس صدق و قرار حق کا اعتراف کرنا پڑا۔

عبادت میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مصروف رہتی تھیں، ایک مرتبہ آپ مہاجرین پر کچھ مال تقسیم کر رہے تھے، زینب اس معاملہ میں کچھ بول پڑیں، عمر نے ڈانٹا، آپ نے فرمایا ان سے درگزر کرو یہ اَواہ ہیں[11] (یعنی خاشع و متضرع ہیں)۔

نہایت قانع و فیاض طبع تھیں، خود اپنے دست و بازو سے معاش پیدا کرتی تھیں اور اس کو خدا کی راہ میں لٹا دیتی تھیں، عائشہ سے مروی ہے کہ جب زینب کا انتقال ہوا، تو مدینہ کے فقراء کو مساکین میں سخت کھلبلی پیدا ہو گئی اور وہ گھبرا گئے[12] ایک دفعہ عمر نے ان کا سالانہ نفقہ بھیجا، انھوں نے اس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور بزرہ بنت رافع کو حکم دیا کہ میرے خاندانی رشتہ داروں اور یتیموں کو تقسیم کردو۔ بزرہ نے کہا آخر ہمارا بھی کچھ حق ہے؟ انھوں نے کہا کپڑے کے نیچے جو کچھ ہو وہ تمھارا ہے، دیکھا تو پچاسی درہم نکلے جب تمام مال تقسیم ہو چکا تو دعا کی کہ خدایا اسی سال کے بعد عمر کے عطیہ کے فائدہ نہ اٹھاؤ، دعا قبول ہوئی اور اسی سال انتقال ہو گیا۔[13]

وفات

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے فرمایا تھا۔ "تم میں مجھ سے جلد وہ ملیں گی جس کا ہاتھ لمبا ہوگا۔"

یہ استعارۃً فیاضی کی طرف اشارہ تھا، لیکن ازواج مطہرات اس کو حقیقت سمجھیں چنانچہ باہم اپنے ہاتھوں کو ناپا کرتی تھیں۔ زینب اپنی فیاضی کی بنا پر اس پیشن گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں، ازواج مطہرات میں سب سے پہلے انتقال کیا، کفن کا سامان خود تیار کر لیا تھا۔ اور وصیت کی تھی کہ عمر بھی کفن دیں تو ان میں سے ایک کو صدقہ کر دینا، چنانچہ یہ وصیت پوری کی گئی عمر نے نماز جنازہ پڑھائی، اس کے بعد ازواج مطہرات سے دریافت کیا کہ کون قبر میں داخل ہو گا، انھوں نے کہا وہ شخص جو ان کے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا، چنانچہ اسامہ بن زید ، محمد بن عبد اللہ بن جحش، عبد اللہ بن ابی احمد بن جحش نے ان کو قبر میں اتارا اور بقیع میں سپرد خاک کیا[14][15][16] زینب نے سنہ بیس ہجری میں انتقال کیا اور 53 برس کی عمر پائی، واقدی نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس وقت نکاح ہوا اس وقت 35 سال کی تھیں لیکن یہ عام روایت کے خلاف ہے، عام روایت کے مطابق ان کا سن 38 سال کا تھا۔ زینب نے مال متروکہ میں صرف ایک مکان یادگار چھوڑا تھا، جس کو ولید بن عبد المالک نے اپنے زمانۂ حکومت میں پچاس ہزار درہم پر خرید کیا اور مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا،[17]

حوالہ جات

  1. زرقانی ص 283
  2. اسد الغابہ ج5 ص463
  3. اسد الغابہ ج5 ص463
  4. صحیح ترمذی ص531
  5. فتح الباری ج8 ص403 تفسیر سورہ احزاب
  6. ترمذی ص561، اسد الغابہ ج5ص464
  7. صحیح مسلم باب فضل عائشہ
  8. صحیح مسلم فضل عائشہ
  9. زرقانی بحوالہ ابن سعد
  10. مسلم ج2 ص335 (فضل عائشہ)
  11. اصابہ ج8 ص93
  12. اصابہ ج8 ص113 بحوالہ ابن سعد
  13. ابن سعد ج8 ص78
  14. صحیح بخاری ج1 ص191
  15. صحیح مسلم ص341 ج2
  16. اسد الغابہ ص465 ج5
  17. طبری ج13 ص2449