اس خاتون کا ہندو نام رام کوری تھا۔ جو موضع جھنڈو خیل بنوں کے باسی میوہ رام کی بیٹی تھی۔ بچپن ہی سے وہ اپنی بیوہ ماں( منہ دیوی) اور چچا ہرنام داس کی زیر کفالت رہی کیونکہ اس کا باپ بہت پہلے فوت ہو چکا تھا۔ افغان معاشرہ میں تربیت پانے کے سبب وہ اسلام کی طرف بہت جلد راغب ہوئی۔
سن شعور کو پہنچ کر وہ بلا اکرہ و جبر مسلمان ہو گئی شریعت اسلامی کے مطابق پیرزادہ امیر نور علی شاہ سکنہ جھنڈو خیل کے عقد زوجیت میں آئی۔ اس خاتون کا اسلامی نام نور جہاں رکھا گیا۔ شروع میں نور جہاں کے رشتہ داروں نے مخالفت کی مگر افہام و تفہیم کے بعد انھوں نے اپنے سابقہ تحریری بیان پولیس تھانہ ڈومیل سے واپس لے لیا۔ بات خفیہ ہاتھ تک پہنچ گئی۔ خفیہ ہاتھ فعال ہو گیا۔ اسے اپنی مرتب کردہ حکمت عملی کو کے لیے کارآمد حربہ ہاتھ آ گیا۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو۔
مقامی طور پر ہندو مسلم اتحاک کو زک پہنچانے کے لیے یہ ایک زرین موقع تھا۔ جسے انگریز اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔ خفیہ ایجینٹوں کے ذریعے اس معمولی واقعہ کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ اور اسے مقامی ہندووں اور مسلمانوں کے مابین وجہ نزاع بنا دیا گیا۔ ہندووں کے چند بااثر افرارد نے منہ دیوی والدہ نورجہان سے انگریز ڈپٹی کمشنر کعب کے نام ایک درخواست لکھوائی کہ اس سے (منہ دیوی) سے تحریر ی بیان زبردستی لیا گیا ہے کیونہ مخالف فریق بااثر اور بارسوخ اور صاحب حیثیت تھے۔ ایک عدد عمر سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کر لیاگیا۔ کعب انگریز ڈپٹی کمشنر نے مداخلت کرتے ہوئے امیر نور علی شاہ کو نورجہان کے حکومت کو حوالہ کرنے کا حکم دیا۔
پیر زادہ امیر نور علی شاہ حالات کی نزاکت اور ناموافق حالات کے پیش نظر اپنے گاؤں کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہوا۔ اور علاقہ غیر میں جانے کی صلاح ٹھہری مگر انھیں اپنی بیوی نور جہاں کے ہمراہ تھانہ غوریوالہ کے نزدیک گرفتار کر لیا گیا۔ نور علی شاہ کو جیل بھیج دیا گیا۔ مگر خاتون نور جہاں کو ایک سکھ سردار سکندر شاہ سنگھ کی تحویل میں دے دیا گیا۔ تاکہ وہاں اس کے عزیز و اقارب اس خاتون پر اپنا اثر ڈال کر اسے اسلام سے برکشتہ کرکے ایک بار پھر اسے کفر کی وادی میں دھکیل دیں۔ مگر حکومت وقت کا یہ حربہ ناکام ثابت ہوا۔ کیونکہ خاتون دل و جان سے مسلمان ہو چکی تھی۔ اور دنیا کی کوئی طاقت اس نشہ کو کافور نہ کر سکی۔
ادھر بنوں کے لوگ کا احتجاجی دباو حد سے بڑھ گیا۔ اور سیلاب کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ایک سیلاب تھا جم غفیر تھی۔ جس کو مزید روکنا حکومت وقت کے لیے مشکل تر ہو ا۔ بنویان ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے آمادہ پیکار ہو چکے تھے۔ حکومت وقت عوامی سیلاب کے شدید دباو سے مجبور ہو کر اس مسلمان خاتون کو ایک سردار خان بہادر غلام حیدر خان شاہ بزرگ خیل کے حوالہ کرکے اسے ان کی تحویل میں دے دیا گیا۔ خاتون نے اس وقت اپنے لیے نور جہان کی بجائے اسلام بی بی کا نام منتخب کیا۔ اور اب اسے اسلام بی بی کے نام سے پکارا جانے لگاتھا۔ خان بہادر غلام حیدر خان کی تحویل میں رہ کر اسے اسلام بی بی سے مجسٹریٹ کے ذریعے اس کاعندیہ معلوم کرنا مطلوب تھا۔ مگر پیشتر کی اسلام بی بی کاعندیہ معلوم کیا جاتا خان بہادر غلام حیدر خان سے حکومت کی طرف سے دباو بڑھ گیا کہ اسلام بی بی کو ڈپٹی کمشنر کے حوالہ کیا جائے۔
غلام حیدر خان نے مجبورا صبح کی نماز کے بعد اسلام بی بی کو حکومت کے حوالے کر دیا۔ جس کے جواب میں عوام نے خان بہادر غلام حیدر خان اور اس کے فرزند خان تاج علی خان کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ عوام غم و غصہ سے بدحال اور بے حال ہو رہے تھے۔ اسلام بی بی انگریز ڈپٹی کمشنر لکب کے حوالے ہوئی اسے ہندووں کے حوالے کیا گیا۔ اور اسی رات اسے امرتسر پہنچا دیا گیا۔ جہاں سنا ہے اسے شدھی بنا دیا گیا۔ پیر زادہ امیر نور علی شاہ اپنی خفت مٹانے کے لیے دیار غیر چلا گیا۔ اور آج تک ان کے متعلق مزید کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ اس واقعے کے رد عمل میں فقیر ایپی نے ایک ایسی تحریک چلائی جس نے آزادی تک انگریزوں کی نیند اڑا کر رکھ دی۔

عبد الروف خالد کی مشہور فلم لاج کا پلاٹ اسی واقعے سے ماخوذ ہے ۔