اسلم ترکی
اسلم شہدائے کربلا میں سے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے غلام تھے، جو انھوں نے اپنے بیٹے امام سجاد کو بخش دیے تھے۔ آپ مدینہ سے ہی حضرت امام حسین کے ساتھ تھے۔ اور آخر کار واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شرف شہادت حاصل کیا۔
اسلم ترکی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | سانحۂ کربلا |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمآپ کا نام اسلم بن عمرو (یا عمر) دیلمی تھا۔ شہدائے کربلا میں سے تھے۔ آپ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے ایک ترک غلام تھے، وہ کماندار اور تیر انداز تھے اور انھیں امام حسین علیہ السلام کا کاتب سمجھا جاتا تھا۔ آپ قاری قرآن اور عربی زبان سے واقف تھے۔ کچھ نے آپ کا نام سلیمان اور سلیم بھی لکھا ہے۔[1]
جنگ و دلاوری
ترمیمعاشورہ کے دن، جب انھیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت ملی، وہ مندرجہ ذیل رجز پڑھتے ہوئے بڑی بہادری سے لڑے: البحر من طعنى و ضربى يصطلى و الجو من سهمى و نبلى يمتلى اذا حسامى فى يمينى ينجلى ينشق قلب الحاسد المبجل.[2] میرے نیزہ اور میری تلوار کے زور سے سمندر ابلتا ہے اور آسمان میرے تیروں سے بھر جاتا ہے۔
شہادت
ترمیموہ بہادری سے لڑے اور بہت سے لوگوں کو جہنم واصل کیا۔ آخر کار یہ جنگجو لڑتے، لڑتے زمین پر گر پڑے۔ آپ نے کافر فوج پر جو حملہ کیا اور بہت سے لوگوں کو ملک عدم میں بھیج دیا، کچھ مورخین نے آپ کے دست مبارک سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ستر بتائی ہے۔
امام حسین ان کے سرہانے آئے اور روئے اور چہرہ ان کے چہرے پر ڈالا۔ اسلم نے آنکھیں کھولیں اور حسین رض کو اپنے سرہانے دیکھا اور مسکرا دیے۔[3] اور چلائے: من مثلي و ابن رسول الله واضع خده علي خدي. «کون میری مثل ہے، خدا کے رسول کے بیٹے نے میرے رخسار پر اپنا رخسار رکھا۔» یہ جملہ کہتے ہی از شوق، جان، جان آفرين کے سپرد کر دی۔[4] اچانک غلام کے بیٹے نے چہرے کا بوسہ لیا اور کہا: ہمارے مذہب میں، سیاہ اور سفید میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمسانچے
ترمیم
منابع
ترمیم- جواد محدثی، فرهنگ عاشورا.
- موسسه تحقیقاتی حضرت ولی عصر عجل الله تعالی فرجه الشریف، بازیابی: 1 اسفند ماه 1392.