اصغر خان مقدمہ
پاکستان میں قومی انتخاباتِ 1990ء میں آئی ایس آئی کی طرف سے مبینہ طور پر سیاست دانوں میں بھاری رقوم کی تقسیم کے خلاف اصغر خان نے عدالت اعظمی میں مقدمہ دائر کیا جو اصغر خان مقدمہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ مہران بینک کے یونس حبیب نے رئیس عسکریہ مرزا اسلم بیگ کے دباؤ پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی غرض سے کڑوڑوں روپے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کیے۔ یونس حبیب نے اس معاملہ میں صدر غلام اسحاق خان اور آئی ایس آئی کے اسد درانی کو بھی ملوث قرار دیا۔
اس مقدمہ کے سلسلہ میں کئی گواہوں کے بیانات لمبے عرصہ کے وقفہ پر قلمبند کیے جاتے رہے۔[1] اسد درانی نے عدالت میں بیان دیا کہ اسلم بیگ نے اسے رقم سیاست دانوں میں تقسیم کرنے کا کہا تھا، جبکہ اسلم بیگ نے بتایا کہ اسے مرحوم صدر اسحاق خان نے کہا تھا۔ عدالت نے فیصلہ میں لکھا کہ دونوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور یہ ان دونوں کا ذاتی فعل تھا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور رقم واپس لینے کے اقدامات کیے جائیں۔[2] زرداری کے صدارتی محل نے عدالت کو بتایا کہ اب صدارتی محل میں کوئی سیاسی خلیہ موجود نہیں۔
- ↑ "'سیاستدانوں میں 348 ملین روپے تقسیم کیے'"۔ بی بی سی موقع۔ 8 مارچ 2012ء۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی:سپریم کورٹ"۔ بی بی سی موقع۔ 19 اکتوبر 2012ء۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ