آصف علی زرداری

پاکستان کے سیاستدان اور سابق صدر

آصف علی زرداری، سابق صدر پاکستان ایک سندھی بلوچ سیاست دان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں شامل حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں۔ حاکم علی زرداری بعد میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے - آصف زرداری جولائی 1955ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا سندھ زمینداری کے ساتھ کراچی میں بھی کاروبار اور سینما گھر تھا۔

آصف علی زرداری
تفصیل=
تفصیل=

گیارہویں صدر پاکستان
مدت منصب
9 ستمبر 2008 – 8 ستمبر 2013
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
راجہ پرویز اشرف
میر ہزار خان کھوسو (قائم مقام)
نواز شریف
محمد میاں سومرو (قائم مقام)
ممنون حسین
صدر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز[1]
آغاز منصب
27 دسمبر 2015
امین فہیم
 
شریک کرسی نشین پاکستان پیپلز پارٹی
مدت منصب
30 دسمبر 2007 – 27 دسمبر 2015
پہلی شخصیت
 
مرد اول پاکستان
مدت منصب
19 اکتوبر 1993 – 5 نومبر 1996
مدت منصب
2 دسمبر 1988 – 6 اگست 1990
معلومات شخصیت
پیدائش 26 جولا‎ئی 1955 (68 سال)[2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوابشاہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اہل تشیع اسلام[4]
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ بینظیر بھٹو  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بلاول بھٹو زرداری
بختاور
آصفہ
بہن/بھائی
رشتے دار دیکھیے زرداری خاندان
عملی زندگی
مادر علمی سینٹ پیٹرک اسکول (1973–1974)
کیڈٹ کالج پٹارو (–1972)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان[5]،  کارجو  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو[6]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الزام و سزا
جرم منی لانڈرنگفی: 1990)  ویکی ڈیٹا پر (P1399) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آصف علی زرداری اور وزیراعظم بینظیر بھٹو, صدر جارج بش اول اور اس کی اہلیہ کے ہمراہ بلاک ہاؤز میں

بچپن اور تعلیم ترميم

آصف علی زرداری کی ابتدائی تعلیم بھی ایل کے ایڈوانی، محمد خان جونیجو، شوکت عزیز اور پرویز مشرف کی طرح سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی میں ہوئی جس کے بعد انہوں نے دادو میں قائم کیڈٹ کالج پٹارو سے 1974ء میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی کسی ادارے میں بھی داخلہ لیا تھا تاہم انہوں نے اپنے گریجویٹ ہونے کی کبھی تصدیق نہیں کی- آصف زرداری اوائل عمر سے ہی یاروں کے یار شخصیت کے حامل کے طور پر کراچی کے متمول حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ 1968ء میں شوقین مزاج کمسن آصف نے فلمساز سجاد کی اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔ فلم کے ہیرو حنیف اور ہیروئن صوفیہ تھیں۔ لیکن یہ ایک فلاپ فلم ثابت ہوئی۔

سیاست ترميم

سیاست سے آصف زرداری کا سن اسی کے وسط تک دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ بس ایک سراغ یہ ملتا ہے کہ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں آصف زرداری نے بھی نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔ مگر یہ کاغذات واپس لے لیے گئے۔ اسی زمانے میں آصف زرداری نے وزیرِ اعلٰی غوث علی شاہ کے ایک وزیر سید کوڑل شاہ کے مشورے سے کنسٹرکشن کے کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالا لیکن اس شعبے میں آصف زرداری صرف دو ڈھائی برس ہی متحرک رہے۔

بے نظیر سے شادی ترميم

1987ء آصف زرداری کے لیے سب سے فیصلہ کن سال تھا جب ان کی سوتیلی والدہ ٹمی بخاری اور بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف کا رشتہ طے کیا۔ 18 دسمبر 1987ء کو ہونے والی یہ شادی کراچی کی یادگار تقاریب میں شمار ہوتی ہے۔ جس کا استقبالیہ امیر ترین علاقے کلفٹن کے ساتھ ساتھ غریب ترین علاقے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں بھی منعقد ہوا اور امرا کے شانہ بشانہ ہزاروں عام لوگوں نے بھی شرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اندوہناک واقعہ کے بعد بے نظیر بھٹو اور ان کے لاکھوں سیاسی پرستاروں کے لیے یہ پہلی بڑی خوشی تھی۔

وزارت ترميم

1988ء میں جب بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو آصف زرداری بھی وزیرِ اعظم ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ اور ان کی سیاسی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہو گئی۔ 1990ء میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ رکنِ قومی اسمبلی بنے۔ 1993ء میں وہ نگراں وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے پھر بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں رکنِ قومی اسمبلی اور وزیرِ ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔ وہ 1997ء سے 1999ء تک سنیٹ کے رکن رہے۔

مقدمات ترميم

پانچ نومبر 1996ء کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں آیااور اس نے ہی ان کو قتل کیا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں ان پر سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد کیسز بنائے گئے۔ اس طرح کی فہرستیں بھی جاری ہوئیں کہ آصف علی زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکا میں نو، بلجئم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لیے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ اس دوران میں انہوں نے تقریباً دس سال قید میں کاٹے اور 2004ء میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد ان کو رہا کر دیا گیا-جبکہ یہ سب الزامات برحق تھے۔

 

قومی مفاہمت فرمان کے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران میں قومی احتساب دفتر نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔[7][8]

جیل ترميم

غلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں نے اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات، ریفرینسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی۔ بالآخر عمران خان کی حکومت بھی اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

آصف زرداری تقریباً مل ملا کر گیارہ برس جیل میں رہے۔ 10 اکتوبر 1990ء بروز بدھ پہلی بار گرفتار ہوئے، دو سال 3ماہ 6دن کی قید کے بعد 6 فروری 1993ء کو رہا ہوئے، 4 نومبر 1996ء کو دوسری بار گرفتار ہوئے، 8 سال 18 دن جیل میں رہ کر 22 نومبر 2004ء کو رہا ہوئے.[9] اب یہ تیسری گرفتاری ہے

جیل میں بھی آصف زرداری مرکزِ توجہ رہے۔ کیونکہ انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کیے، جن میں کھانے اور کپڑوں کی تقسیم اور نادار قیدیوں کی ضمانت کے لیے رقم کا بندوبست بھی شامل رہا۔ دورانِ قید ان پر جسمانی تشدد بھی ہوا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

صدر پاکستان ترميم

جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکا، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد سے اس کے اور آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ کوئی ایک مقدمہ بھی یا تو ثابت نہیں ہو سکا یا واپس لے لیا گیا یا حکومت مزید پیروی سے دستبردار ہو گئی۔ اس سلسلے میں اکتوبر دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ شروع میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھے گا اور "مسٹر سونیا گاندھی" بن کے رہے گا۔ لیکن پھر اس نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کر لیا۔ اگست 2008ء میں الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کے لیے تجویز کیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے با ضابطہ طور پر اس کو 6 ستمبر 2008ء کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر زرداری نے ایسا نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی کا فعال سربراہ بھی رہا۔ کچھ مبصرین کے مطابق ایسا اس طرح ممکن ہوا کیونکہ روایت کے باوجود غیر سیاسی ہونے کی شِک آئین پاکستان میں موجود نہیں - بالآخر عدالت عالیہ لاہور نے زرداری کو مشورہ دیا کہ آئین کی روح کے مطابق صدر رہتے ہوئے سیاسی عہدہ رکھنا مناسب نہیں، تاہم اس فیصلے میں کوئی حکم صادر کرنے سے گریز کیا گیا۔[10] 2013ء انتخابات کے عین پہلے عدالتی فیصلہ کے ڈر سے زرداری جماعت کی سربراہی سے علاحدہ ہو گیا۔ 8 ستمبر 2013ء کو مدّت ختم ہونے پر زرداری کو صدارت کی کرسی خالی کرنا پڑی۔ چائنا کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت پاکستان میں سی پیک کا آغاز آصف زرداری کی اہم کامیابی ھے جس کےلیے انہوں نے چینی حکومت کے ساتھ 13 بار مذاکراتی عمل میں حصہ لیا

الزامات ترميم

زرداری پر مالی بدعنوانی کے بے شمار الزامات آئے۔ رشوت خوری کی شہرت کی وجہ سے "Mr. 10%" کا عوامی اور اخباری خطاب پایا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے دور میں لمبی جیل کاٹی۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں 2007ء، 2008ء، میں آپ کے خلاف تمام بدعنوانی کے مقدمات ختم کر دیے گئے۔ چودھری اعتزاز احسن جیسی مقتدر شخصیات نے ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو درست کہا ہے [11]بینظیر کے 2007ء قتل کے بعد جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے اور پیپلزپارٹی کا بینظیر کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ شریک قائد کا عہدہ سنبھالا۔ 2007ء الیکشن کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو پس منظر سے چلا رہے ہیں۔ 2008ء میں مختلف موقعوں پر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے نواز شریف سے کھلے عام تحریری معاہدہ کرنے کے چند روز بعد مُکر جانے کے طریقہ کو یہ کہہ کر صحیح طرز عمل گردانا کہ "معاہدے حدیث نہیں ہوتے۔ "[12]

برطانوی اخبار کے مطابق زرداری کے وکلا نے لندن کی عدالت میں جواب داخل کرایا تھا کہ زرداری کے معالجوں کے مطابق وہ ذہنی مریض ہیں، اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔[13]

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ افغان نژاد زلمے خلیل زاد کے زرداری سے روابط پر امریکی افسروں نے خلیل زاد کی پیشی کی۔ زرداری نے امریکی حکام کو بتایا کہ خلیل زاد انہیں مشورے اور مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔[14] آصف علی زرداری نے صدر بنتے ہی اپنے اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا اور اپنے اوپر قائم تمام مقدمات رفتہ رفتہ ختم کرواتے چلے گئے، ان کے مقدمات ختم کروانے میں سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کا بڑا ہاتھ تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کہ ان کی حتی المکان کوشش رہی کے افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر نہ بحال ہوں۔

جنوری 2010ء میں قومی احتساب دفتر نے پس پردہ زرداری کے لیے کام کرنے والے ناصر خان کی اسلام آباد میں 2460 کنال زمین کو سرکاری سپردگی میں لینے کا حکم دیا۔[15]

ذہنی استطاعت ترميم

بینظیر کی چوتھی برسی پر صدر پاکستان کی کرسی سنبھالے زرداری نے نوڈیرو کے شہر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے منصف اعظم افتخار چودھری سے طنزیہ سوال کرتے ہوئے کہا:[16]

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا؟ اسی بارے میں ’میں بھی پوچھتا ہوں چودھری افتخار جج صاحب سے کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟‘

— 

بیرونی روابط ترميم

حوالہ جات ترميم

  1. "Zardari elected PPPP president". دنیا نیوز. 27 دسمبر 2015. 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2015. 
  2. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/zardari-asif-ali — بنام: Asif Ali Zardari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000026852 — بنام: Asif Ali Zardari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. Bokhari، Farhan (29 نومبر 2010). "Pakistan-Saudi relations appear strained in leaked cables". CBS News. 29 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2011. 
  5. ربط : https://d-nb.info/gnd/1025833937  — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
  6. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 10 مئی 2020
  7. آسٹریلین، 18 دسمبر 2009ء، "Asif Ali Zardari on shaky ground after amnesty overturned "
  8. دی آسٹریلین 10 دسمبر 2009ء، "Watchdog claims Zardari reaped $1.7bn during Bhutto's rule "
  9. https://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=06-17-2019/Lahore/images/06_005.png
  10. "Pakistan court ruling on Zardari 'political role'". بی بی سی. 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2011. 
  11. روزنامہ نیشن، 8 جون 2008ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Aitzaz says 'most' graft charges against Zardari & Benazir were justified"
  12. bbc 23 اگست 2008ء، "معاہدے حدیث یا قرآن نہیں: زرداری"
  13. انڈپنڈنٹ، 26 اگست 2008ء، "Questions raised over Zardari mental health"
  14. نیویارک ٹائمز، 25 اگست 2008ء، "U.N. Envoy’s Ties to Pakistani Are Questioned "
  15. نیشن، 23 جنوری 2010ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Seizure order for president’s front man land by NAB"
  16. "'جسٹس افتخار سے پوچھتا ہوں کہ بی بی کیس کا کیا بنا'". بی بی سی موقع. 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2011. 
سیاسی جماعتوں کے عہدے
ماقبل  شریک امیر مجلس (شریک چئیرمین) پاکستان پیپلز پارٹی
2007–تا حال
مع شراکت: بلاول بھٹو زرداری
برسرِ عہدہ
سیاسی عہدے
ماقبل  صدر پاکستان
2008–تاحال
برسرِ عہدہ