اصلاح شیعیت دراصل اہل تشیع مذہب میں پیدا ہونے والی وہ تحریک ہے جس کا آغاز آقای شیخ ابراہیم زنجانی کے دور سے شروع ہوا۔ آقای ابراہیم زنجانی کی 1895 عیسوی میں وفات ہوئی۔ آپ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے مکتب تشیع میں موجود خرافات و بدعات کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب "خاطرات زنجانی" میں بہت سی رسومات اور اعمال کو جو اس زمانے کے اہل تشیع میں مروج تھیں غیر اسلامی قرار دیا۔ ان کے بعد آیت اللہ ھادی نجم آبادی نے اصلاح شیعت کی خاطر بہت سی کتب لکھیں جن میں سے "تحریر العقلاء" ان کی مشہور کتاب ہے۔ ان کے بعد آیت اللہ اسد اللہ خارقانی نے جو آیت اللہ ھادی نجم آبادی کے شاگرد تھے اصلاح تشیع میں نمایاں خدمات انجام دیں اور "محو الموھوم" نامی اعلی کتاب تصنیف کی جس کو بعد میں آیت اللہ طالقانی نے بھی شائع کیا۔ ان کے بعد ان کے شاگرد آیت اللہ شریعت سنگلجی نے اپنے استاد آیت اللہ خارقانی کی مشن کو آگے بڑھایا اور اصلاح تشیع کو پرزور اور ببانگ دھل آگے پھیلایا۔ آپ نے اہل تشیع عوام کو توحید کی طرف راغب کرنے کیلے "توحید عبادت یا یکتا پرستی" نامی کتاب لکھی۔ جلد ہی آپ نے قرآن فھمی کو عام کرنے کیلے "مفتاح القرآن" اور"براہین قرآن " نامی کتب لکھیں۔ اس کے بعد آپ نے شیعہ عقیدہ "رجعت" کے باطل ہونے کے متعلق"اسلام ع رجعت" نامی کتاب لکھی جو آپ نے اپنے شاگرد عبدالوہاب فرید تنکابنی کے نام سے شائع کیا۔ انھوں نے ایک اور کتاب "محوالموھوم" لکھی اور اس کو اپنے شاگرد "حسینعلی مستعان" کے نام سے شائع کیا۔ جس میں آپ نے یہ بات ثابت کیا کہ حضرت عیسی ع کی وفات ہو چکی اور ان کے علاوہ حضرت خضر اور الیاس بھی زندہ نہیں ہین۔ آیت اللہ شریعت سنگلجی کی شاگردوں میں احمد کسروی،علی اکبر حکمی زادہ ،سید جلال جلالی ،حیدر علی قلمداران اور ڈاکٹر صادق تقوی شامل ہیں جنھوں نے بعد میں اصلاح شیعت کے موضوع پر بہت سی کتب لکھیں،کاص طور پر علی اکبر حکمی زادہ کی کتاب "اسرار ہزار سالہ" تو بہت مشہور کتاب کے طور پر سامنے آئی جس کے جواب میں امام خمینی نے "کشف الاسرار" اور آیت اللہ خالصی زادہ نے بھی اس کتاب کے رد میں کتاب لکھی۔

اس کے بعد حیدر علی قلمداران، آیت اللہ برقعی اور ڈاکٹر مصطفی حسینی طباطبائی اور ڈاکتر علی شریعتی کا دور آتا ہے۔ پھر آیت اللہ صالحی نجف آبادی نے اصلاح تشیع میں نمایاں کتب لکیھں۔ جس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے "الشیعہ والتصحیح" نامی کتاب لکھی،اور شیعہ نوجوانون کی بیداری کیلے "اے دنیا کے شیعو بیدار ہوجاؤ" نام کی کتاب بھی لکھی اور ولایت فقیہ کے رد میں "امام خمینی فی المیزان" لکھی۔ دوسری طرف عراق میں احمد الکاتب نے اہل تشیع کو خرافات اور بنیادی عقائد میں موجود غلط نظریات کو ختم کرانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے " تشیع سیاسی و تشیع دینی" ،"شیعہ سیاسی فکر کی ارتقا اور ولایت فقیہ" اور امام مھدی کے وجود کے انکار پر تین کتابیں لکھیں جن میں سے سب سے مشہور کتاب "امام مھدی حقیقت یا ایک افسانہ" نامی کتاب مقبول ہے۔ پاکستان میں اصلاح شیعت کا آغاز آیت اللہ محمد حسین نجفی ڈھکو نے کیا،انھوں نے "اصلاح رسوم" نامی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ شیعہ مکتب میں موجود خرافات کے رد میں کتب شائع کیں۔ دوسری طرف ؑلامہ محمد حسین زیدی برستی نے شیعوں کے عقائد میں غلو کے حامل عناصر کے رد میں چالیس کے قریب کتابیں لکھیں۔ آج کے دور میں پاکستان میں سب سے مقبول اصلاح شیعت پر کتب لکھنے والے عالم علامہ آغا سید علی شرف الدین بلتستانی ہیں،جنھوں نے پینسٹھ کے قریب کتابیں لکھیں جن میں سے " شیعہ اہل بیت"،"باطنیہ و اخوتھا"،"عقائدورسومات شیعہ" اور "اٹھو اور قرآن کا دفاع کرو" مشہور کتابیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاح شیعت کا آغاز جو انیسویں صدی میں شروع ہوا آج اکیسویں صدی میں بھی اس کے دور رس نتائج برامد ہوئے اور یہ تحریک آج بھی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ اور لبنان و عرق میں خصوصا اور ایران و دیگر ممالک میں عموما اس تحریک سے متاثر علما اصلاح شیعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم