اقبال خسرو قادری
اقبال خسرو قادری، بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر ہیں۔
اقبال خسروقادری | |
---|---|
پیدائش | 1965 کڈپہ، آندھرا پردیش، انڈیا |
پیشہ | ادب سے وابستگی، |
وجہِ شہرت | شاعری |
مذہب | اسلام |
پیدائش
ترمیماقبال خسرو قادری کی پیدائش دو مئی 1965ء کو ہوئی۔ امتیاز پاشاہ قادری ابن سید شاہ اقبال پاشاہ قادری اردو حلقوں میں اقبال خسرو قادری کے قلمی نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں پچھلے پینتیس (35) برس سے شاعری کرتے آ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کو سنوارنے کے لیے اور فن شاعری کے نوک و پلک کو سمجھنے کے لیے کڈپہ کے استاد شاعر ساغر جیدی کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے جدیدیت کی طرف راغب ہیں اب تک وہ تین تحقیقی کتابیں مرتب کرچکے ہیں جو ’’شناخت‘‘، ’’مناہل‘‘ اور ’’تنویر‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔[1]
تصانیف
ترمیم- منہاج (دیوان)، (2) مدرکہ (غزلیں / رباعیات)، (3) اعیان (غزلیں) (4) سیمیا (نظمیں)، (5) اورنگ، (6) اسفار (غزلیں / رباعیات) (7) یامنی آزاد نظمیں) (8)جوانب (غزلوں کا مجمو عہ)۔
تعلیم
ترمیمڈپلوما ان میکانکل انجینئری، بی۔ اے لٹ، ایم۔ اے (انگریزی ادب)، ایم۔ اے (اردو) پی ایچ۔ ڈی (اردو)
شناخت پر تجزیہ
ترمیماقبال خسروقادری نے ’’شناخت‘‘ میں اپنے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اوائل میں اپنے والد سے اصلاح لیا کرتے تھے مزید زینت افکار کو فروغ دینے کے لیے ڈاکٹر ساغر جیدی جیسے استاد سخن سے رجوع ہوئے اور اپنی پہچان کا سکہ جمایا۔ شروع ہی سے وہ جدیدیت کے قائل تھے۔ نئے الفاظ کی تراکیب، غیر مانوس اور دقیق الفاظ کو شاعری میں ہنر مندی کے ساتھ استعمال کرنے میں امتیاز رکھتے ہیں۔ جس کی بنا پر شہر کڑپہ اور ادبی دنیا میں موصوف کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ غزل اور نظم کے علاوہ رباعیات جیسی اصناف سے انھیں بہت شغف ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ نعت رسول اکرمؐ کو توشۂ آخرت سمجھتے ہیں
اشعار میں جدید رجحانات
ترمیمان کے اب تک چھ مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے ہیں۔ ہر مجموعہ کلام میں کئی ایک جگہ انھوں نے اپنے طرز فکر کو جدید انداز سے پیش کیا ہے۔ شاعری کو نیا پیکر عطا کرنے کا ہنر موصوف کو اچھی طرح آتا ہے۔ جناب احمد جلیس (مرحوم) ’’اعیان‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں : ’’خسرو کے ہاں مشکل قوافی اور نامانوس بحور استعمال کے باوجود ندرت خیال بھی ہے اور لفظوں کی حرمت مندی بھی ۔۔۔ فکر و خیال کے دائروں کی بے پناہ وسعت ہے۔ ‘‘
اقبال خسرو قادری نے ’’شناخت‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ روایت کی اندھی تقلید کے قائل نہیں اور روایت سے پوری طرح منحرف بھی نہیں۔ ان کا کہنا ہے : ’’جدیدیت کی جڑیں روایت کی زمینوں سے منسلک ہو کر ہی اپنے لیے ضروری نمکیات حاصل کرسکتی ہیں۔ ‘‘ موصوف نے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید راہ اختیار کی ہے۔ ان کے اس طرزِ فکر کے بارے میں عقیل جامد ’’مدرکہ‘‘ کے پیش آہنگ میں لکھتے ہیں : ’’جہاں خسرو نے جدیدیت کے سرچشمہ سے اپنے آپ کو فیض یاب کیا ہے وہیں انھوں نے غالب، ولی، انشا کی روایت کو آگے بڑھانے کی سعی مشکور بھی کی ہے۔ ‘‘ جدید طرز بیاں، اسلوب اور ہیئت کے ساتھ ساتھ نئی تراکیب کو بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے ان کے مجموعہ ہائے کلام میں اکثر و بیشتر اشعار اجنبیت، اکیلاپن، اظہار خیال کی آزادی اور نامانوس قوافی کے نمائندہ بن جاتے ہیں۔ اس طرز کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
” | سب شکر کے عال میں مگن تھے حاشیہ بردار
پتھر کے تڑخنے کی صدا تھا یہی ناچیز |
“ |
” | مجھے حقیر لگا خاک کا بدن اپنا
نہ جانے کونسے افلاک پر رواں تھا میں |
“ |
” | خود اپنے ہی گھر میں گھن سی لگے
ہمیں اتنا سلیقہ شعارنہ کر |
“ |
” | تو اسناد کے بحر زخار سے
نکال صدف کا خرد امتیاز |
“ |
علامت نگاری
ترمیمنئی علامتوں کو جدیدیت میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ قدیم لفظوں کی تراکیب اور علامت نگاری سے ہٹ کر موصوف نے نئی علامتوں کو بڑی چابک دستی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ’’اندھی تعریف، بنت ماں، عریاں نگاہ، کالی غزل، اونچی دعا، اجلے خواب، نیلی اشتہا، فکر طناب، اجلے اعمال، سرخ خواب، چاندی کی جھیل، عریاں روحیں، بوڑھے پیڑ، مردہ شبد، اجلے تجربے، پریم کے کبوتر، اندھے سوال، بوڑھا آنگن، ہوس کی پشت، پانی کا جسم، اجلی شہرت‘‘ جیسے الفاظ و تراکیب اقبال خسرو قادری کے کلام میں موجود ہیں چند شعر ملاحظہ ہوں :[2]
” | پانی کا جسم چھونے کی قیمت نہ دے سکا
بے روح مٹھیوں میں گہر رکھ کے کیا کریں |
“ |
” | اجلی شہرت سے ڈر رہا ہے کوئی
رات کا منظر رہا ہے کوئی |
“ |
” | ہوس کی پشت پہ شرمندگی کا بار لیے
دیار حسن میں محو طواف ہیں موصوف |
“ |
اس کے ساتھ ساتھ ادب میں اپنی پہچان بنانے کے لیے ایسے قوافی کا استعمال بھی کیا ہے جو عروض دا ں کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں۔ مثلاً بدن کا قافیہ غالباً، پیاس کا قافیہ خاص، طاق کا قافیہ کا خ، اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اپنی فنی مہارتوں کو ظاہر کرنے کے لیے موصوف نے نہ صرف روایت سے بغاوت کی بلکہ اپنی آزادی خیال کا اظہار بھی کیا ہے۔