سورہ الطلاق
قرآن مجید کی 65 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 12 آیات ہیں۔ اس سورت کا موضوع طلاق ہے۔
دور نزول | مدنی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 65 |
عددِ پارہ | 28 |
تعداد آیات | 12 |
نام
اس سورت کا نام ہی الطلاق نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس میں طلاق ہی کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اسے سورۃ النساء القصریٰ بھی کہا ہے یعنی چھوٹی سورۂ نساء۔
زمانۂ نزول
حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے صراحت فرمائی ہے اور سورت کے مضمون کے اندرونی شہادت بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ اس کا نزول لازماً سورۂ بقرہ کی اُن آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق کے احکام پہلی مرتبہ دیے گئے تھے۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس کا ٹھیک زمانۂ نزول کیا ہے لیکن بہرحال روایات سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جب سورۂ بقرہ کے احکام کو سمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے اور عملاً بھی ان سے غلطیوں کا صدور ہونے لگا، تب اللہ تعالٰی نے ان کی اصلاح کے لیے یہ ہدایات نازل فرمائیں۔
موضوع اور مضمون
اس سورہ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں :
- طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے۔ (البقرہ 229)
- اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو (اپنی زوجیت میں) واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں (البقرہ 228)
- پھر اگر وہ (تیسری بار) اس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہو جائے (البقرہ 230)
- جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو (الاحزاب 49)
- اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں (البقرہ 234)
ان آیات میں جو قواعد مقرر کیے گئے تھے وہ یہ تھے :
- ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے۔
- ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گذر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے لیکن اگر مرد تین طلاق دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہو جاتا ہے اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہو جائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے۔
- مدخولہ عورت، جس کو حیض آتا ہو، اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آ جائے۔ ایک طلاق یا دو طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہے تو یہ عدت رجوع کی گنجائش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔
- غیر مدخولہ عورت، جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے۔ وہ چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کر سکتی ہے۔
- جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورۂ طلاق ان قواعد میں کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔
ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیحدگی کی نوبت نہ آنے پائے اور علیحدگی ہو تو بدرجۂ آخر ایسی حالت میں ہو جبکہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں۔ کیونکہ خدا کی شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے، ورنہ اللہ تعالٰی اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
” | اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا جو طلاق سے بڑھ کر اسے نا پسند ہو | “ |
[1] اور
” | تمام حلال چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے | “ |
دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہو گیا ہو یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہوگی اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح ہوگا اور جس بچے کے والدین طلاق کے ذریعے الگ ہو چکے ہوں اس کی رضاعت کا انتظام کس طرح کیا جائے۔