عدت

مذہب اسلام میں طلاق یا شوہر کی موت کے بعد دوسری شادی کے وقفہ یا ادوار

عدت،نکاح زائل ہونے یا شبہ نکاح کے بعد عورت کا نکاح سے ممنوع ہونا اور ایک مخصوص مدت تک انتظار کرنا عدت ہے۔[1] اگر بیوہ یا طلاق شدہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے حاملہ ہو تو اس عرصے میں حمل کی علامات واضح ہو جاتی ہیں اور ہونے والے بچے کی وراثت طے ہو جاتی ہے۔

لفظی معنی

ترمیم

عدۃ وعد بروزن فعلۃ بمعنی معدود ہے اور اسی بنا پر انسانوں کی گنی ہوئی جماعت کو عدۃ کہتے ہیں اور عورت کی عدت بھی اسی معنی میں ہے یعنی اس کے گنے ہوئے دن۔ عورت کی عدت سے مراد وہ ایام کہ جن کے گذر جانے پر اس سے نکاح کرنا حلال ہو جاتا ہے۔[2]

تاریخ

ترمیم

جاہلیت میں طلاق کا عام طریقہ یہ رہا ہے جس کو بیوی پر کسی سبب سے غصہ آتا، وہ نتائج و عواقب کا لحاظ کیے بغیر، ایک ہی سانس میں تین ہی نہیں بلکہ ہزاروں طلاقیں دے کر بیوی کو گھر سے نکال دیتا۔ اس طریقہ طلاق میں عورت، مرد، بچوں بلکہ پورے کنبہ کے لیے جو مضرتیں ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر (اسلام نے) ہدایت فرمائی کہ جب طلاق دینے کی نوبت آئے تو وہ عدت کے حساب سے طلاق دے۔ اور عدت کا شمار رکھے۔

اس عدت کا شمار میاں اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے۔

بیوی کے لیے

ترمیم

بیوی کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ عدت کے دوران وہ کسی اور مرد کی زوجیت میں نہیں جا سکتی۔ میاں کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ عدت کے دوران اگر وہ چاہے تو مراجعت کر لے۔ عدت گذر جانے کے بعد اس کا یہ حق ختم ہو جائے گا۔

میاں کے لیے

ترمیم

طلاق دینے کے بعد اسی عورت کی بہن سے نکاح کرنا چاہے تو عدت کے بعد کر سکتا ہے نیز اگر میاں اپنی چوتھی بیوی کو طلاق دے اور تین بیویاں موجود ہوں تو جب تک عدت ختم نہیں ہو جاتی وہ مزید نکاح نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں اس دوران میں معلوم ہوا کہ بیوی حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہو جائے گی اور اس دوران میں عورت کے نان و نفقہ اور اس کی رہائش کی ساری ذمہ داری مرد پر ہو گی۔

دوران عدت حکم اسلام

ترمیم

اس عدت کے دوران نہ تمھیں یہ حق حاصل ہے کہ ان کو گھر سے نکالو اور نہ بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ وہاں سے نکل کھڑی ہوں، بلکہ دونوں یکجا ایک ہی گھر میں رہیں تاکہ باہمی سازگاری اور اصلاح احوال کی کوئی گنجائش ہو تو یہ یکجائی اس میں مددگار ہو۔ طلاق ایک مجبوری کا علاج ہے لیکن جائز چیزوں میں اللہ کے نزدیک یہ سب سے زیادہ مکروہ ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے بندوں کو اس سے بچانے کے لیے طلاق پر عدت کی شرط عائد کی ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ اس مدت میں میاں بیوی ایک ہی گھر میں رہیں تاکہ دونوں ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرسکیں کہ آخری قدم اٹھانے سے پہلے اصلاح احوال کا کوئی امکان ہے یا نہیں۔ یہاں گھر سے نکلنے سے مراد وہ نکلنا نہیں ہے جو معمول کے مطابق اپنی ضروریات کے لیے ہوا کرتا ہے، بلکہ وہ نکلنا ہے جو کسی گھر کو خیر باد کہنے کے معنی میں ہوتا ہے۔[3]

بیوگی کی عدت کے دوران عورت کے لیے حکم

ترمیم

بیوگی کی عدت کے دوران میں عورت کے لیے کن چیزوں کی پابندی شرعاً ضروری ہے، اس ضمن میں بہت سی غلط فہمیاں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں اور اتنی پختہ ہیں کہ ان کی پابندی، اصل شریعت سے بھی زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے۔ بیوہ کے لیے عدت میں شریعت نے درج ذیل امور کی پابندی بیان کی ہے۔

1۔ وہ شوہر کی وفات سے لے کر چار ماہ دس دن تک سوگ کا عرصہ گزارے گی۔ اس دوران میں اسے ترجیحاً شوہر ہی کے گھر میں رہنا چاہیے اور بلا ضرورت گھر سے باہر کی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

البتہ جن ملازمت پیشہ خواتین کا کوئی اور معاشی سہارا نہ ہو اور گذر بسر کا بھی کوئی متبادل انتظام نہ ہو، ان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ ضرورت کے اصول پر دوران عدت میں بھی اپنی ملازمت جاری رکھ سکتی ہیں۔

2۔ عدت کے دوران میں وہ سادہ لباس پہنے اور زیب وزینت سے اجتناب کرے۔ میک اپ، زیورات کا استعمال اور شوخ لباس پہننا نامناسب ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صاف ستھری نہ رہے۔

3۔ عدت کے عرصے میں اسے نئے نکاح کا واضح پیغام دینے سے اجتناب کیا جائے۔ اشارے کنایے میں مدعا اس تک پہنچایا جا سکتا ہے، لیکن صاف اور صریح پیغام نکاح نہیں دیا جا سکتا۔

عوام میں دو غلط فہمیاں بہت عام ہیں۔ ایک یہ کہ اس عرصے میں بیوہ کو گھر کے کسی کمرے میں محصور ہو کر رہنا پڑتا ہے اور وہ گھر کے کام کاج بھی نہیں کر سکتی۔ دوسری یہ کہ اس عرصے میں اس کے لیے پردے کا اہتمام عام معمول سے زیادہ لازم ہے اور وہ گھر کے غیر محرم عزیزوں کے سامنے نہیں آ سکتی۔

یہ دونوں باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ ایسی کوئی پابندی شریعت نے عائد نہیں کی۔ اگر کوئی خاتون عام معمول کے طور پر خاندان کے تمام غیر محرموں (مثلاً شوہر کے بھائی، بھانجوں بھتیجوں وغیرہ) سے پردہ کرتی ہے تو عدت میں بھی کر سکتی ہے۔ لیکن اگر گھر کے عام ماحول میں ایسے پردے کا التزام نہیں کیا جاتا جو شرعاً لازم بھی نہیں تو دوران عدت میں اس کا کوئی خصوصی اہتمام کرنا شریعت کا تقاضا نہیں۔

اقسام عدت

ترمیم

خود عدت کی 7 اقسام ہیں۔

معتد (عدت رکھنے والے فرد) کے اعتبار سے اس کی 15 اقسام ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. بہار شریعت امجد علی اعظمی، ج2، حصہ8، ص234
  2. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد4 صفحہ331 ،علی محمد، سورۃ الطلاق، آیت1،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  3. تدبر قرآن۔ ج 8۔ ص 435 تا 437