سورہ الفجر
الفجر قرآن مجید کی 89 ویں سورت ہے جس میں 30 آیات اور 1 رکوع ہے۔
الفجر | |
دور نزول | مکی |
---|---|
نام کے معنی | نماز فجر کے وقت کی جانب اشارہ |
زمانۂ نزول | نبوت کا وسطی زمانہ مکہ مکرمہ |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 89 |
عددِ پارہ | 30 |
تعداد آیات | 30 |
الفاظ | 139 |
حروف | 597 |
گذشتہ | الغاشیہ |
آئندہ | البلد |
نام
پہلے ہی لفظ والفجر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب مکۂ معظمہ میں اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف ظلم کی چکی چلنی شروع ہو چکی تھی۔ اسی بنا پر اہل مکہ کو عاد اور ثمود اور فرعون کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔
موضوع اور مضمون
اس کا موضوع آخرت کی جزا اور سزا کا اثبات ہے جس کا اہل مکہ انکار کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے جس طرح ترتیب وار استدلال کیا گیا ہے، اس کو اسی ترتیب کے ساتھ غور سے دیکھیے۔
سب سے پہلے فجر اور دس راتوں اور جفت اور طاق اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر سامعین سے سوال کیا گیا ہے جس بات کا تم انکار کر رہے ہو اس کے برحق ہونے کی شہادت دینے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں؟ یہ چیزیں اس باقاعدگی کی علامت ہیں جو شب و روز کے نظام میں پائی جاتی ہے اور ان کی قسم کھا کر یہ سوال اس معنی میں کیا گیا ہے کہ خدا کے قائم کیے ہوئے اس حکیمانہ نظام کو دیکھنے کے بعد بھی کیا اس امر کی شہادت دینے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ نظام جس خدا نے قائم کیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ آحرت برپا کرے اور اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی بازپرس کرے۔
اس کے بعد انسانی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے بطور مثال عاد اور ثمود اور فرعون کے انجام کو پیش کیا گیا ہے کہ جب وہ حد سے گذر گئے اور زمین میں انھوں نے بہت فساد مچایا تو اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس گیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ کائنات کا نظام کچھ اندھی بہری طاقتیں نہیں چلا رہی ہیں، نہ یہ دنیا کسی چوپٹ راجا کی اندھیر نگری ہے، بلکہ ایک فرمانروائے حکیم و دانا اس پر حکمرانی کر رہا ہے جس کی حکمت اور عدل یہ تقاضا خود اس دنیا میں انسانی تاریخ کے اندر مسلسل نظر آتا ہے کہ عقلی اور اخلاقی حس دے کر جس مخلوق کو اس نے یہاں تصرف کے اختیارات دیے ہیں اس کا محاسبہ کرے اور اسے جزا اور سزا دے۔
اس کے بعد انسانی معاشرے کی عام اخلاقی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں عرب جاہلیت کی حالت تو اس وقت سب کے سامنے عملاً نمایاں تھی اور خصوصیت کے ساتھ اس کے دو پہلوؤں پر تنقید کی گئی ہے۔ ایک، لوگوں کا مادہ پرستانہ نقطۂ نظر جس کی بنا پر وہ اخلاق کی بھلائی اور برائی کو نظر انداز کر کے محض دنیا کی دولت اور جاہ و منزلت کے حصول یا فقدان کو عزت و ذلت کا معیار قرار دیے بیٹھے تھے اور اس بات کو بھول گئے تھے کہ نہ دولت مندی کوئی انعام ہے، نہ رزق کی تنگی کوئی سزا، بلکہ اللہ تعالٰی ان دونوں حالتوں میں انسان کا امتحان لے ہے کہ دولت پاکر وہ کیا رویہ اختیار کرتا ہے اور تنگ دستی میں مبتلا ہو کر کس روش پر چل پڑتا ہے۔ دوسرے، لوگوں کا یہ طرز عمل کہ یتیم بچہ باپ کے مرتے ہی ان کے ہاں کس مپرسی میں مبتلا ہو جاتا ہے، غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، جس کا بس چلتا ہے مردے کی ساری میراث سمیٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور کمزور حق داروں کو دھتا بتا دیتا ہے اور مال کی حرص لوگوں کو ایک ایسی نہ بجھنے والی پیاس کی طرح لگی ہوئی ہے کہ خواہ کتنا ہی مال مل جائے ان کا دل سیر نہیں ہوتا۔ اس تنقید سے مقصود لوگوں کو اس بات کا قائل کرنا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جن انسانوں کا یہ طرز عمل ہے ان کا محاسبہ آخر کیوں نہ ہو۔
پھر کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ محاسبہ ہوگا اور ضرور ہوگا اور وہ اس روز ہوگا جب اللہ تعالٰی کی عدالت قائم ہوگی۔ اس وقت جزا و سزا کا انکار کرنے والوں کی سمجھ میں وہ بات آ جائے گی جسے آج وہ سمجھانے سے نہیں مان رہے ہیں، مگر اس وقت سمجھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ منکر انسان ہاتھ ملتا ہی رہ جائے گا کہ کاش میں نے دنیا میں اِس دن کے لیے کوئی سامان کیا ہوتا۔ مگڑ یہ ندامت اسے خدا کی سزا سے نہ بچا سکے گی۔ البتہ جن انسانوں سے دنیا میں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اس حق کو قبول کر لیا ہوگا جسے آسمانی صحیفے اور خدا کے انبیا پیش کر رہے تھے، خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا کے عطا کردہ اجر سے راضی ہوں گے، انھیں دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنے رب کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوں اور جنت میں داخل ہو جائیں۔