سورہ الحاقہ
قرآن مجید کی 69 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 52 آیات ہیں۔
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 69 |
عددِ پارہ | 29 |
تعداد آیات | 52 |
نام
سورت کے پہلے ہی لفظ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اور اس کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت تو شروع ہو چکی تھی، مگر اس نے ابھی زیادہ شدت اختیار نہ کی تھی۔ مسند احمد میں حضرت عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ اسلام لانے سے پہلے ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ستانے کے لیے گھر سے نکلا مگر آپ مجھ سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہو چکے تھے۔ میں پہنچا تو آپ نماز میں سورۂ الحاقہ پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور سننے لگا۔ قرآن کی شان کلام پر میں حیران ہو رہا تھا کہ میرے دل میں یکایک خیال آیا کہ یہ شخص ضرور شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ فوراً ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے
” | یہ ایک رسول کریم کا قول ہے، کسی شاعر کا قول نہیں | “ |
میں نے اپنے دل میں کہا شاعر نہیں تو پھر کاہن ہے۔ اسی وقت زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے
” | اور نہ کسی کاہن کا قول ہے۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے | “ |
یہ سن کر اسلام میرے دل میں گہرا اتر گیا۔ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت ان کے قبول اسلام سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی، کیونکہ اس واقعے کے بعد بھی ایک مدت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے اور وقتاً فوقتاً متعدد واقعات ان کو اسلام سے متاثر کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ اپنی بہن کے گھر میں ان کے دل پر وہ آخری ضرب لگی جس نے ان کو ایمان کی منزل پر پہنچا دیا۔ (مزید دیکھیے : سورۂ مریم اور سورۂ واقعہ)
موضوع اور مضمون
اس کا پہلا رکوع آخرت کے بیان میں ہے اور دوسرا رکوع قرآن کے مُنزَل من اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رسولِ برحق ہونے کے بارے میں۔ پہلے رکوع کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ قیامت کا آنا اور آخرت کا برپا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ضرور پیش آ کر رہنی ہے۔ پھر آیت 4 سے 12 تک یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ہے وہ آخرکار خدا کے عذاب کی مستحق ہو کر رہی ہے۔ اس کے بعد آیت 17 تک قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ کس طرح برپا ہوگی۔ پھر آیت 18 سے 37 تک وہ اصل مقصد بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالٰی نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوعِ انسانی کے لیے ایک دوسرے زندگی مقدر فرمائی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس روز تمام انسان اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں ان کا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا۔ ہر ایک کا نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی تھی کہ ایک دن انھیں اپنے رب کو حساب دینا ہے اور جنھوں نے دنیا کی زندگی میں نیک عمل کر کے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے پیشگی سامان کر لیا تھا، وہ اپنا حساب پاک دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اور انھیں جنت کا ابدی عیش نصیب ہوگا۔ اس کے برعکس جن لوگوں نہ خدا کا حق مانا نہ بندوں کا حق ادا کیا، انھیں خدا کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔
دوسرے رکوع میں کفار مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اس قرآن کو ایک شاعر اور کاہن کا کلام کہتے ہو، حالانکہ یہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ایک رسول کریم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ رسول اس کلام میں اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹانے یا بڑھانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اگر وہ اس میں اپنی من گھڑت کوئی چیز شامل کر دے تو ہم اس کی رگ گردن (رگ دل) کاٹ دیں۔ یہ ایک یقینی برحق کلام ہے اور جو لوگ اسے جھٹلائیں گے انھیں آخر کار پچھتانا پڑے گا۔