امیر حسن
امیر حسن بلند پایہ بزرگ اور ولی کامل شخصیت اور سلسلہ چشتیہ کے مشہور پیر طریقت تھے ـ
ولادت
ترمیمامیر حسن بن مظفر حسن حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ، لیکن ایک قول کے مطابق 1926 اور ایک تخمینہ کے لحاظ سے 1920 ہوگی ـ
تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم درجہ سوم پرائمری تک پڑھ کر دینی تعلیم کی طرف رغبت ہوئی تو اسکول چھوڑ کر قریب کی بستی میں ایک عالم سے قرآن پاک پڑھا ، اس کے بعد جونپور محلہ ملا ٹولہ ، مدرسہ کرامتیہ میں داخلہ لیا ، ابتدائی فارسی پڑھی ، شرح جامی بحث فعل تک پڑھ کر مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور 1355 میں داخلہ لیا اور یہیں اوسط پر اوسط سے دورہ حدیث شریف تک سات برس پڑھا ، اس طرح مکمل درسیات کی تکمیل ہوئی .[1]
تدریس
ترمیمفراغت کے بعد شفیق استاد مفتی محمود حسن گنگوہی کے مشورہ سے مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی آگئے ،مدرسہ قائم ہوئے ابھی چھ ماہ ہوئے تھے ، یہ 1363 ہجری کی بات ہے ، یہاں کچھ نائب ناظم رہے ، لیکن طبیعت میں یکسوئی کے سبب اس عہدہ سے دستبردار ہو گئے ، البتہ صدر المدرسین تا عمر رہے ، اخیر عمر تک قریب 55 سال اسی مدرسہ میں رہے ۔
نکاح واولاد
ترمیمحضرت شیخ کی اجازت سے عقد طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا ، اولاد میں ایک لڑکی اور دو لڑکے ہویے ۔
بیعت و خلافت
ترمیمطالب علمی میں عبد المنان خادم حضرت عبد القادر رائیپوری کے ساتھ رائے پور جانا ہوتا ، وہیں بیعت کی درخواست کی تو بیعت کر لیا ، شغل میں صرف ایک تسبیح درود شریف کی بتلادی ، رائیپوری کے وصال کے بعد محمد زکریا کاندھلوی سے رجوع کیا اور بیعت کی درخواست کی ،کوئی جواب نہ ملا ، جب زیادہ اصرار کیا تو کہا میں حسین احمد مدنی اور رائیپوری کے بیعت کیے ہوئے لوگوں کو دوبارہ بیعت نہیں کرتا ، البتہ خدمت کے لیے حاضر ہوں اور کہا جو اذکار رائیپوری نے بتائے ہیں کرتے رہو اور کہا کہ جتنا بآسانی ہو سکے کلمہ طیبہ پڑھ لیا کرو اور اسی طرح درود شریف ۔ چونکہ طالب علمی میں فارغ اوقات میں قرآن پاک حفظ کرتا تھا اس لیے زیادہ اذکار نہیں بتلایے ، مراقبہ دعائیہ کی تلقین کی ، بہر حال کہا کہ جیسا رائیپوری نے کہا ہے وہی کرتے رہو ، ان کے ا نتقال کے بعد شیخ سے گاہے گاہے عرض احوال کرتے رہے ۔ خلافت سے قبل ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ مرشد محمد زکریا کاندھلوی مدینہ سے جس رات سہارنپور آ رہے تھے اسی تاریخ میں اخیر شب میں دیکھا کہ وہ میرے کمرے میں آئے اس وقت میں ہردوئی میں تھا ، شیخ کے آنے کی تاریخ و دن کا علم نہ تھا ، بعد میں حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی دن تھا جس دن وہ واپس ہویے تھے ، خیر وہ آئے اور ایک خوبصورت ڈبہ جیسے روشنائی کی ڈبہ ہوتی ہے مجھے دی اور کہا کہ میں تمھارے لیے لایا ہوں ، خواب ہی میں فرط مسرت میں آنسو نکل آئے کہ شیخ کے ہزاروں چاہنے والے ہیں ، انھیں چھوڑ میرے لیے یہ تحفہ لائے ہیں ، 28 رمضان بروز جمعہ 1385 ہجری کو شیخ نے اپنے معتکف میں طلب کیا ، حاضر ہوا تو ایک جبہ عنایت کر کہا کہ اسے پہن لو (جو ان کو مستعمل تھا ، اس میں خوشبو بے انتہا تھی ، جو کئی ماہ رہی ) چنانچہ حسب ارشاد پہن لیا ، پھر کہا آج سے تمھیں بیعت کی اجازت دیتا ہوں ، یہ امانت ہے ، حفاظت کرنا ۔
اسفار
ترمیمہندوستان کے چھوٹے بڑے سینکڑوں شہروں میں اپنا فیض عام کیا ، اس کے علاوہ افریقہ ، یورپ اور بنگلہ دیش کے بھی دعوتی دورے و اسفار ہوا کرتے تھے ۔[2]
وفات
ترمیم2012 ممبئی میں وفات ہوئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی