بنگلہ دیش

برصغیر پاک و ہند کا ایک ملک

بَن٘گْلَہ دیش (بنگالی: বাংলাদেশ)، سابق مشرقی پاکستان، جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ یہ تین اطراف سے بھارت سے ملا ہوا ہے۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اب جنوب میں اس کی سرحدیں خلیج بنگال سے ملتی ہیں۔ بھارت کی ریاست کو ملاکر بنگالی اسے اپنا نسلی وطن کہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا مطلب ہے "بنگال کا ملک"۔

عَوامی جَمْہُورِیَۂ بَن٘گْلَہ دیش
গণপ্রজাতন্ত্রী বাংলাদেশ
پرچم بنگلہ دیش
'ترانہ: 
'
مقام بنگلہ دیش
دار الحکومت
and largest city
ڈھاکہ
سانچہ:Bwwyj
سرکاری زبانیںبنگالی
نسلی گروہ
مذہب
آبادی کا نامبنگلہ دیشی
حکومتوحدانی ریاست پارلیمانی نظام اسلامی
• صدر
عبد الحامد
حسینہ واجد
شیریں شرمین چودھری
سید محمود حسین
مقننہجاتیہ سنسد
14–15 اگست 1947
• پاکستان سے آزادی
26 مارچ 1971
16 دسمبر 1971
• آئین
4 نومبر 1972
31 جولائی 2015
رقبہ
• کل
147,610[3] کلومیٹر2 (56,990 مربع میل) (92 واں)
• پانی (%)
6.4
آبادی
• 2017 تخمینہ
163,187,000[4] (8th)
• 2011 مردم شماری
149,772,364[5] (8th)
• کثافت
1,106/کلو میٹر2 (2,864.5/مربع میل) (10th)
جی ڈی پی (پی پی پی)2020 تخمینہ
• کل
$686.598 billion[6] (29 واں)
• فی کس
$5,453[6] GDP_PPP_per_capita_rank = 136 واں
جی ڈی پی (برائے نام)2020 تخمینہ
• کل
$347.991 billion[6] (39 واں)
• فی کس
$2,067[6] (148 واں)
جینی (2016)32.4[7]
میڈیم
ایچ ڈی آئی (2016)Increase 0.614[8]
میڈیم · 135
کرنسیTaka () (BDT)
منطقۂ وقتیو ٹی سی+6 (بنگلا دیش معیاری وقت)
تاریخ فارمیٹ
ڈرائیونگ سائیڈبائیں
کالنگ کوڈ+880
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈیBd.
۔বাংলা
ویب سائٹ
bangladesh.gov.bd

بنگلہ دیش کی موجودہ سرحدیں1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر وجود میں آئیں جب یہ پاکستان کے مشرقی حصے کے طور پر برطانیہ سے آزاد ہوا۔ پاکستان کے دونوں مشرقی و مغربی حصوں کے درمیان میں 1600 کلومیٹر (ایک ہزار میل) کا فاصلہ حائل تھا۔ مشترکہ مذہب ہونے کے باوجود پاکستان کے دونوں بازوؤں میں نسلی و لسانی خلیج بڑھتی گئی، جسے مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش حکومت نے مزید وسیع کر دیا جو بالآخر 1971ء میں ایک خونی جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بنی۔ اس جنگ میں بنگلہ دیش کو بھارت کی مکمل مدد حاصل رہی۔ اور بھارت کی سازش کے ذریعے بنگلہ دیش وجود میں آیا شیخ مجیب الرحمن کو بھارت نے ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا آج موجودہ بنگلہ دیش میں بہارت زبردستی اپنا حکم منواتا ہے اور بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد انڈیا کی ایجنٹ بنی ہوئی ہے جس طرح اس کے والد کا انجام ہوا اس کا انجام بھی ویسا ہی ہوگا گا بنگلہ دیش کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی پاکستان سے محبت بستی ہے۔ ایک لحاظ سے پاکستان کو توڑنے میں بھارتی حکمرانوں یا شیخ مجیب الرحمٰن سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں اور فوج کی غلط جنگی حکمت عملی کا ہاتھ تھا۔ 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی گئی۔ لیکن مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی کے سربراہ ذو الفقار علی بھٹو نے اقتدار کی کشش لالچ اور بنگالیوں کو غدار اور خود سے کم تر سمجھنے کی وجہ سے عام انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور فوج نے بھی بھٹو کی حمایت جاری رکھی یوں شیخ مجیب الرحمٰن کو وزیر اعظم پاکستان بننے کا حق نہیں دیا گیا حالانکہ وہ اقتدار کے حقدار تھے۔ لیکن پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد ذو الفقار علی بھٹو کو پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم تسلیم کیا گیا جو سراسر جھوٹ ہے اس لیے کہ اگر 70ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جاتا تو ظاہر ہے ذو الفقار علی بھٹو نہیں بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہوتے۔ بہرحال شیخ مجیب الرحمٰن کی اقتدار سے نا جائز محرومی نے ان کے ذہن میں پاکستان سے آزادی اور بنگلہ دیش بنانے کے عزم کو مزید پختہ کر دیا اور انھوں نے ہر حالت میں پاکستان توڑنے کی ٹھان لی۔ دوسری طرف بھارت بھی جس کو نظریہ پاکستان سے شدید تکلیف تھی اس قسم کے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا۔ لہذا بھارتی حکمرانوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی ہر طرح سے حمایت کی۔ انجام کار مشرقی پاکستان میں موجود فوج پر بھارت کے حمایت اور تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نے حملے شروع کر دیے۔ ان گوریلوں کو تربیت دینے کا ذمہ داری بھارتی فوج کے میجر جنرل شاہ بیگ سنگھ کی تھی جو بعد میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر ہونے والے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میں مارے گئے۔ شروع شروع میں ہونے والی جھڑپیں بعد میں ایک بھرپور جنگ میں بدل گئیں۔ اس جنگ میں افواج پاکستان نے کم تعداد اور وسائل کے باوجود دشمن کا نہایت جرات اور دلیری سے مقابلہ کیا۔ پاکستانی فوج کے افسران اور سپاہیوں کی بہادری اس قدر زبردست تھی کہ اس سے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی میدان جنگ میں بہادری کی مثالیں تازہ ہو گئیں۔ لیکن پھر بھی کم تعداد اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے فوج کے کمانڈر جنرل نیازی کو ڈھاکہ کے پیریڈ گراؤنڈ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لاکھوں بھارتی فوجیوں اور مکتی باہنی کے کارندوں کے سامنے بھلا ایک ڈویژن فوج محدود ہتھیاروں کے ساتھ کب تک ٹکتی۔ لہذا شکست مقدر بنی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ جس پر بعد میں مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے اسلام آباد سے نیویارک تک خوب ٹسوے بہائے اور پاکستان توڑنے کی ذمہ داری سے خود کو علاحدہ کرنے کی خوب اداکاری کی۔ بنگلہ دیش بنے پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا لیکن ابھی تک پاکستانی عوام کو اس سوال کا جواب ہی نہیں مل پایا کہ پاکستان کو سیاست دانوں نے توڑا یا فوج نے یا دونوں نے مل کر؟ دونوں فریق ایک دوسرے کو پاکستان توڑنے کا ذمہ قرار دیتے ہیں۔ فوج سیاست دانوں کو اور سیاست دان ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کو۔

بنگلہ دیش اپنے قیام سے مستقل سیاسی افراتفری کا شکار ہے اور اب تک 13 مختلف حکومتیں بر سر اقتدار آ چکی ہیں اور کم از کم چار فوجی تاخت (مارشل لا) ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور تقریباً 144،000 مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 94 واں ملک ہے۔ دنیا کا گنجان آباد ترین آبادی کے حامل ممالک میں سے ایک ہے بلکہ اگر چھوٹے موٹے جزائر یا شہری حکومتوں کو فہرست سے نکال دیا جائے تو یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن جاتا ہے جس کے ہر مربع کلومیٹر پر 998.6 (یا ہر مربع میل پر 2،639 افراد) بستے ہیں۔ یہ تیسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اس کی آبادی ہندوستان میں مقیم اقلیتی مسلمانوں سے کچھ کم ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ دریائے گنگا و برہمپتر کے زرخیز دہانوں (ڈیلٹا) پر واقع ہے۔ مون سون کی سالانہ بارشوں کے باعث یہاں سیلاب اور طوفان معمول ہیں۔ بانگلادیش جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) اور BIMSTEC کا بانی رکن اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) اور ترقی پزیر 8 (ڈی -8) کا رکن ہے۔

آبادیات

ترمیم

مذہب

ترمیم

اسلام بنگلہ دیش کا ریاستی مذہب ہے۔[9][10] بنگلہ دیشی آئین مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور قطع نظر مذہب کے تمام بنگلہ دیشی شہریوں کو مساوی بنیادی حقوق دیتا ہے۔[11][12]

2011ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمان کل آبادی کا 90%، جب کہ ہندو 8.5% اور 1% دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔[13] 2003ء کے ایک جائزے سے تصدیق کی گئی کہ شہری خود کی شناخت مذہب سے کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش صرف اسلام، ہندومت، مسیحیت اور بدھ مت مذاہب ہیں۔[14]

زبانیں

ترمیم

بنگلہ' یا بنگالی بنگلہ دیش میں بولی جانی والی اہم زبان ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ 1971ء تک بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اور اس کی پہچان مشرقی پاکستان کے طور پر تھی۔ اردو کو یہاں کی مقامی بنگالی زبان کی طرح سرکاری حمایت حاصل تھی۔ تاہم 1971ء کے بعد کے واقعات جن کے بعد جب یہ ملک وجود میں آیا، اردو زبان کو یہاں کی پہچان سے متصادم سمجھا گیا اور یہاں کی بہاری آبادی جو اردوگو ہے، غیر شہری سمجھا گیا۔ موجودہ دور میں اردو داں آبادی کی تعداد چار لاکھ بتائی گئی ہے۔[15]

اور دیکھیں

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "NATIONAL SYMBOLS→National مارچ"۔ Bangladesh Tourism Board۔ Bangladesh: Ministry of Civil Aviation & Tourism۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2017۔ In 13 جنوری 1972, the ministry of Bangladesh has adopted this song as a national marching song on its first meeting after the country's independence. 
  2. ^ ا ب
  3. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 22 اکتوبر 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2017 
  4. "Bangladesh" IMF Population estimates.
  5. Data آرکائیو شدہ 4 ستمبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین۔Census – Bangladesh Bureau of Statistics.
  6. ^ ا ب پ ت "Bangladesh"۔ World Economic Outlook Database۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2018 
  7. "Gini Index"۔ عالمی بنک۔ 9 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مارچ 2011 
  8. "Human Development Report 2016" (PDF)۔ United Nations Development Programme۔ 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2017 
  9. "بنگلہ دیش کا 1972ء کا آئین، Reinstated in 1986, with Amendments through 2014" (PDF)۔ constituteproject.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2017 
  10. David Bergman (28 Mar 2016)۔ "Bangladesh court upholds Islam as religion of the state"۔ الجزیرہ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2018 
  11. "The Constitution of The People's Republic Of Bangladesh Article 12: Secularism and freedom of religion"۔ State.gov۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2018 
  12. "Bangladesh's Constitution"۔ bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2017 
  13. "The Constitution of The People's Republic Of Bangladesh"۔ State.gov۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2015 
  14. In Bangladesh, Urdu has its past and present but no future