انجینئری میں خواتین
ایک سائنسی یا تکنیکی شعبہ جسے کسی ملک میں "غیر نسوانی" تصوّر کیا جا سکتا ہے، وہی شعبہ مختلف تاریخی ادوار یا کسی دوسرے ملک میں بہت سی خواتین کی خدمات سے لب ریز ہو سکتا ہے۔ ایک مثال علم الہندسہ یا انجینئری کی ہے، جو بہت سارے ممالک میں مردوں کے لیے مخصوص شعبہ تسلیم کیا جاتا ہے، خاص طور پر عمومی ذیلی شعبے جیسے برقی یا میکانیکی انجینئری۔ تاہم اس حوالے سے چند استثنا ہیں۔ سابقہ سوویت یونین میں انجینئری کے تمام ذیلی شعبوں میں خواتین کا تناسب بہت زیادہ تھا اور یونی ور سی داد ناشیو نال دے انجی نیئیرا آف نیکاراگوا (Universidad Nacional de Ingenieria of Nicaragua) میں 1990ء کے دوران میں انجینئری کے طلبہ میں خواتین کی نمائندگی 70 فی صد تھی۔
جدید دور میں خواتین کی انجینئری بڑھتی ہوئی دل چسپی
ترمیمدنیا کے کئی ممالک کی طرح بر صغیر میں عورتوں کا انجینئری کے لیے رجحان بہت کم تھا۔ تاہم اب یہ صورت حال بدل رہی ہے۔ بھارت کی پہلی خاتون خلا نورد۔ وہ بنارسی لال کے ہاں ہریانہ کے قصبہ کرنال میں پیدا ہوئیں۔ پنجاب انجینئرنگ کالج، چندی گڑھ سے ایروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ پورے کالج میں صرف 6 لڑکیاں تھیں اور وہ ایروناٹیکل انجینئری میں داخلہ لینے والی واحد لڑکی۔ 1987ء میں جب پائلٹ کا اجازت نامہ ملا تو پہلی بار خلا نورد بننے کے بارے میں غور کیا۔ دسمبر 1994ء میں جب امریکی خلائی ادارے ناسا کو خلا نوردوں کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے درخواست گزار دی چنانچہ تربیت کے لیے بلا لیا گیا۔ اور والد کی اجازت سے امریکی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں ان کی ملاقات جین بیرئر سے ہوئی جو فلائنگ انسٹرکٹر تھے۔ انھوں نے چاولہ کو ان کے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے بہت مدد کی اور انھیں حوصلہ دیا کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہیں۔ چنانچہ امریکی خلائی ادارے ناسا میں تربیت کا موقع مل گیا۔
وہ ناسا ہی سے منسلک رہی تھیں۔ ایک خلائی مشن کے دوران میں اپنی ٹیم کے ساتھ ہلاک ہوئیں تھیں۔[1]