انور منصور خان
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان۔انور منصور خان نے اپنے کیریئر کی ابتدا بطور فوجی کیپٹن کے کی اور وہ انیس سو اکہتر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں بھی حصہ لیا۔ اور جنگی قیدی بن کر بھارت گئے۔ انیس سو تہتر میں انور منصور خان فوج نے فوج سے استعفیٰ دیا تاہم انھیں اکتوبر سنہ چوہتر میں فوج سے فارغ کیا گیا۔
انور منصور خان کے والد منصور خان سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انور منصور نے بھی اسی پیشے کو اپنایا اور انیس سو اکیاسی میں وکالت کی ابتدا کی۔ انیس سو تراسی میں انھیں ہائی کورٹ کے لیے چنا کیا گیا جبکہ سنہ دو ہزار میں انھیں سندھ ہائی کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا مگر اگلے ہی سال وہ مستعفی ہو گئے۔
بعد میں دو ہزار دو میں انھیں سندھ کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا گیا مگر اس عہدے سے بھی انھوں نے دو ہزار سات میں استعفٰی دے دیا۔ اپنے اس استعفے کی بنیاد انھوں نے سندھ حکومت کی جانب سے قانونی رائے نہ لینا بتایا تھا، جب کہ بعد میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ ان کے سندھ کے وزیر اعلیٰٰ ارباب غلام رحیم سے اختلاف پیدا ہو گئے تھے۔
استعفے کے بعد انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جاری کیے گئے عبوری آئینی حکم ( پی سی او ) کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور اسے سپریم کورٹ کی جانب سے تین نومبر کو جاری کردہ حکم نامے کے متصادم قرار دیا۔ انور منصور خان پاکستان بار، سندھ ہائی کورٹ بار اور کراچی بار کے رکن تو رہے تاہم انھوں نے زیادہ تر خود کو بار کی سیاست سے دور رکھا۔ تاہم 2009 میں وہ سندھ ہائی کورٹ بار کی صدرات کے لیے رشید رضوی کے مدمقابل تھے تاہم انھیں اس الیکشن میں شکست ہوئی۔
پاکستان میں کمپنیز آرڈیننس کی تیاری، پاکستان میں اور اسلامی بینکنگ رائج کرانے میں بھی انور منصور خان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے انور منصور خان کے ریفرنس پر سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس افضل سومرو کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف دائر کارروائی کی سفارش کی۔ لطیف کھوسہ کی جگہ پاکستان کے اٹارنی جنرل بنے۔ مگر مارچ 2010 میں این آر او کیس میں وزارت قانون کی طرف عدم تعاون کی بنیاد پر مستعفی ہو گئے۔