انڈونیشیا کے دیہی علاقہ جات میں خواتین کی بااختیاری
انڈونیشیا کے دیہی علاقہ جات میں خواتین کی بااختیاری (انگریزی: Women empowerment in the village governance of Indonesia) ایشیائی اور کئی دیگر خطوں میں خواتین کے مطالعات کا موضوع بن چکا ہے کیوں کہ انڈونیشیا میں ایک قانونی ترمیم کے ذریعے نہ صرف ملک کے دیہی علاقہ جات کی خواتین کو مزید اختیارات تفویض کیے گئے ہیں، بلکہ وہاں ایک سماجی توازن اور خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جس کے دونوں ہی محاذوں پر مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں۔
قانون
ترمیمانڈونیشیا نے ایک قانون 2014ء میں منظور کیا تھا، جسے قانون نمبر 6/2014 کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت دیہات کو روز مرہ کے معاملات کے انتظامات میں زیادہ اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ انھیں زیادہ ترقی کے لیے مالیاتی امداد کی فراہمی، پالیسیوں اور ترقیاتی معاملات کی وضاحت کی گئی ہے اور سب سے زیادہ شہریوں کی وسیع تر شراکت داری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس قانون کو عرف عام میں دیہی قانون (Village law) بھی کہا گیا۔[1]
دیہی قانون قانون نے واضح طور پر جنسی برابری کو اپنی عمل آوری میں لازم قرار دیا ہے۔ جس طرح کہ دفعہ 26 اور دفعہ 63 کے مطابق جنسی برابری دیہی انتظامیہ کے لیے مطلوبہ ہوگی۔ مزید واضح طور پر، دفعہ 58 میں مذکور ہے کہ دیہی نمائندہ مجلس میں، جسے بدن مُسیاواراہ دیسا (دیہی مشاورتی قونصل یا بی ایم ڈی) کہا جاتا ہے، میں خواتین شریک ہوں گی، جس سے کہ خواتین کی موجودگی یقینی بنائی گئی ہے۔ دیہی قانون کی مزید تصدیق دفعہ 121 کے نکات (1) اور (2) سے بھی ہوتی ہے، جس میں یہ ادعا کیا گیا ہے کہ جنسی برابری دیہی ترقی کا ایک اہم عنصر ہے۔ دفعہ 72 نگتہ (1) اور دفعہ 80 نکتہ (2) کے مطابق گاؤں کی فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کا شامل ہونا ضروری ہے، چاہے وہ نمائندہ مجلس میں ہو یا سماج کے ذریعے ہو۔ اس بات کو مزید تقویت وزارت دیہات کے ضابطے (Regulation of the Ministry of Villages)، پسماندہ علاقہ جات کی ترقی اور دیہی چندہ جات کی فراہمی کی اولیتوں کے گشتیہ نمبر 22/2015 (Transmigration no. 22/2015 on Priorities in Allocating Village Funds) میں واضح طور پر کہا گیا ہے دیہات کی ترقی اور با اختیار بنانے کے پروگراموں تک رسائی کے لیے خواتین اولیت کے حامل زمرہ میں شامل کیا گیا ہے۔[1]