بھارت میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششیں

بھارت میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششیں (انگریزی: Women empowerment efforts in India) ملک کی آزادی سے لے کر اب تک کئی محاذوں پر جاری ہے۔ یہ کوششیں جن زاویوں پر مرکوز ہیں، ان میں قانون سازی، فروغ تعلیم، کاموں میں شراکت داری، سیاسی صف بندیوں میں جگہ اور کاروباری دنیا میں حصے داری شامل ہے۔

فائل:Moitra Mahua M.P.jpg
مغربی بنگال سے منتخبہ رکن لوک سبھا مہوا موئترا ایک تیز طرار اور بااختیار خاتون سمجھی جاتی ہیں۔

قانون سازی

ترمیم

ہندو بیوہ کی دوبارہ شادی قانون 1856ء

ترمیم

روایتی طور پر ہندو سماج بیوہ عورتوں کی دو بارہ شادی کا مخالف رہا ہے۔ تاہم اس قانون کے بننے کے بعد نہ دو بارہ شادی کی اجازت ملتی ہے، بلکہ اس کی شق 5 کے تحت یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ دو بارہ شادی شدہ خاتون وہ تمام حقوق کی حق دار ہے جو ایک عام شادی شدہ عورت کو حاصل ہیں۔[1]

انسداد کم سن شادی 1929ء

ترمیم

1929ء کے اس قانون کے تحت بے حد عام کم سنوں کی شادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ شروع میں یہ عمر 9 سے 10 سال طے کی گئی تھی۔ بعد میں عمر میں اضافہ کر کے یہ حد 15 سال کر دی گئی۔ جدید دور میں شادی کے لیے لڑکیوں کی کم سے کم عمر 18 سال ہے، جب کہ لڑکوں کے لیے یہ عمر 21 سال ہے۔[1]

حق جائداد قانون 1937ء

ترمیم

یہ بھارت کا اولین قانون تھا، جو ہندو عورتوں کو جائداد میں حصے داری کی بات کرتا تھا۔ اس قانون کے تحت متوفی شوہر کی اہلیہ اس کی قائم مقام اور جائداد میں اس کے حصے کی حق دار تصور کی گئی ہے۔[1]

ہندو قانون وراثت 1956ء

ترمیم

ہندو قانون وراثت 1956ء بھارت کی پارلیمان کی جانب سے ایک قانونی ترمیم تھی تاکہ غیر وصیت شدہ وراثت اور نظام وراثت کو یقینی بنایا جائے۔ یہ قانون ہندوؤں، بدھ متیوں، جینیوں اور سکھوں میں نافذ ہے۔[2] یہ قانون وراثت کا مساوی اور جامع نظام وضع کرتا ہے اور یہ میتاکشر اور دایہ بھاگ، دونوں مکاتب فکر پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کی تعریف مروجہ وراثت کے ہندو قوانین کو یکجا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہندو خواتین کی محدود جائدادوں کے اختیارات کو اس قانون کے ذریعے کالعدم کر دیا گیا۔ کسی بھی ہندو عورت کی محصلہ جائداد اس کا مکمل اختیار تصور کی گئی ہے اور اُسے اِس کی دیکھ ریکھ اور فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے کچھ حصے ہندو قانون وراثت کے ترمیم شدہ قانون بابت 2005ء کے ذریعے تبدیل کیے گئے ہیں۔[2]

جہیز پر پابندی قانون 1961ء

ترمیم

بھارت میں جہیز کا مطالبہ بلا تفریق مذہب ہندوؤں، مسلمانوں اور دیگر مذہبی حلقوں میں رائج ہے۔ اس قانون اور بعد کی مزید قانون سازیوں کے تحت جہیز کو ایک قابل سزا جرم بنایا جا چکا ہے۔[1]

مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) قانون، 2019ء

ترمیم

مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل، 2017ء (انگریزی: The Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Bill, 2017) کے نام مودی حکومت نے عدالت عظمی کے اگست، 2017ء کے فیصلے کے بعد فوری طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کیا ہے،[3] جسے 28 دسمبر 2017ء کو لوک سبھا میں منظوری مل گئی[4]

اس قانون کے تحت طلاق ثلاثہ (طلاق بدعت) -خواہ زبانی، تحریری، برقی مثلاﹰ ای میل، ایس ایم ایس، فوری پیام کاری یا کسی شکل میں ہو- غیر قانونی اور غیر موثر ہوگی اور طلاق دینے والے فرد کو تین سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔[5]

تعلیم

ترمیم

حکومت ہند بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم شروع کر چکی ہے جس کے بعد چنندہ جنس کے اسقاط حمل کو روکنا، لڑکیوں کی بقا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا اور اسی طرح ان کی تعلیم اور سماجی سرگرمیوں میں ان کی حصے داری کو یقینی بنانا شامل ہے۔[6] اس کے علاوہ ملک کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں خواتین کے لیے تحفظات موجود ہیں۔

کام میں شراکت

ترمیم

سرکاری ادارے اور کمپنیاں عورتوں کو مساوی مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں زیر ملازمت پندرہ یا اس سے بڑھ کر عمر کی خواتین کا فی صد 23.6% ہے۔[7] تاہم اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورتیں سیاسی میدان میں شامل ہو رہی ہیں۔ اندرا گاندھی ملک کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں، جب کہ پرتبھا دیوی پاٹل صدر جمہوریہ رہ چکی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت Dr Kamjula Neelima, "A review on Welfare of Empowered Women in India - A Key to Global Development, Business Vision, Sister Nivedita Foundation's Management & Business Quarterly Journal, Hyderabad, Jan-March 2017, pp 71-77.
  2. ^ ا ب HINDU SUCCESSION ACT, 1956
  3. "'100 cases of instant triple talaq in the country since the SC judgement'"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2020 
  4. "Lok Sabha passes triple talaq bill"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2020 
  5. "Triple Talaq Bill Passed In Lok Sabha"۔ Republic TV۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2017 
  6. Beti Bachao Beti Padhao
  7. Women in the Workforce – India: Quick Take