اوتاد وتد کی جمع ہے بمعنی میخیں، کھونٹیاں، چوبیں، کیلیں، (مجازاً) ستون۔ قرآن مجید میں پہاڑوں کو اوتاد کہا گیا فرعون کو ذی الاوتادمیخوں والا کہا گیا صوفیاء کے ہاں رجال الغیب کے نظم مراتب میں تیسرے طبقے کے لوگ۔ یہ نظام چار مقدس افراد پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں العمود (ستون)بھی کہا جاتا ہے۔ اوتاد میں سے ہر ایک کے ذمے دنیا کے چار بنیادی نقطوں میں سے ایک کی نگرانی ہوتی ہے اور اس کی اپنی جائے سکونت اسی نقطے کے مرکز میں ہوتی ہے۔[1] علامہ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن السخاوی المتوفی 902 ھ لکھتے ہیں : تاریخ بغداد میں الکتانی سے روایت ہے کہ نقباء تین سو ہیں، نجباء ستر ہیں، ابدال چالیس ہیں، اخیار سات ہیں اور عمد چار ہیں اور غوث ایک ہے، اگر ان کی دعا قبول ہو جائے تو فبہا ورنہ غوث دعا کرتا ہے اور وہ اس وقت تک سوال کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔ الاحیاء میں ہے کہ ہر روز غروب آفتاب سے پہلے ابدال میں سے ایک شخص بیت اللہ کا طواف کرتا ہے اور ہر رات اوتاد میں سے ایک بیت اللہ کا طواف کرتا ہے۔[2] صوفیا کی اصطلاح میں ’’ اوتاد‘‘ کا معنی جس طرح میخ کو جب کسی چیز میں گاڑ دیا جائے تو وہ اس چیز کو قائم رکھتی ہے، اسی طرح جب پہاڑوں کو زمین میں نصب کر دیا گیا تو پہاڑ زمین کو اپنے محور پر قائم رکھتے ہیں اور زمین کو محور سے متجاوز نہیں ہونے دیتے۔ بعض علما نے کہا ہے کہ ’’ اوتساد‘‘ حقیقت میں اکابر اولیاء اور اللہ تعالیٰ کے مخصوص اہل صفا ہیں، وہ ان پہاڑوں کی طرح ہیں جن کو زمین میں نصب کیا ہوا ہے، ابوسعید خراز سے یہ سوال کیا گیا کہ اوتاد اور ابدال میں کون افضل ہیں؟ انھوں نے کہا : اوتاد افضل ہیں، سائل نے سوال کیا : کیسے؟ ابو سعید خراز نے کہا : کیونکہ ابدال ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹتے رہتے ہیں اور ایک مقام سے دوسرے مقام میں ان کا بدل چھوڑ دیا جاتا ہے اور اوتاو انتہائی بڑے مرتبہ پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، وہ اپنے مقام سے نہیں بنتے اور اپنے مقام پر اس طرح قائم رہتے ہیں جیسے کسی جگہ میخ کو گاڑ دیا گیا ہو اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے مخلوق کا نظام اور اقوام قائم رہتا ہے، ابن عطاء نے کہا : او تادہی اہل استقامت اور اہل صدق ہیں، ان کے احوال متغیر نہیں ہونے اور وہ مقام تمکین پر فائز ہیں۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مختصر اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔ صفحہ 146 دانشگاہ پنجاب لاہور
  2. المقاصد الحسنہ ص 34، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت
  3. روح البیان ج 10 ص 347، داراحیاء التراث، العربی، بیروت،