مسلمان جغرافیہ دانوں محمودکاشغری، رشید الدین اور ابوزید البلخی ترک قبائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے۔ ان میں ایک قبیلہ غز تھا۔ جسے اوغوز بھی پکارا جاتا تھا اور اسی نسبت سے بلاد اسلام میں ترکی النسل قبائل کو اوغوز کہا جاتا تھا۔ اوغوز یا غز ْقبیلے نے دوسرے ترک قبائل کے ساتھ غالباً چوتھی اور پانچویں صدی ہجری درمیان میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ (دیکھے ترک)

  • غز قبیلے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سلجوقی فرمانروا سلطان سنجر کے دور میں خراسان آئے تھے۔ سلطان سنجر نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔ مگر جنگ میں اس کے لشکرکو شکست ہو گئی اور وہ خود بھی قید ہو گیا تھا۔ غزوں نے خراسان کے بعد غزنہ اور کرمان پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ یہ علاقے انھوں نے خسروشاہ غزنوی سے چھینے تھے[1]۔مقامی حکمران ان سے مقابلے میں عاجز آ گئے تھے۔ سلطان جلال الدین خوارزم شاہ خطا سے لشکر لے کر آیا اور خوارزم ان سے خالی کریا۔ سلطان سیف الدین غوری نے غزوں کو نکالنے کی کوشش کی مگر لشکر غوری نے شکست کھائی اور وہ مارا گیا۔ بالاآخر سلطان غیاث الدین غوری نے غزوں سے غزنہ، کابل اور زابلستان خالی کروائے[2]۔مگر غز افغانستان کے علاقے میں پہلے سے رہائش پزیر تھے اور مقامی حکمرانوں کے لشکروں میں شامل تھے۔ سلطان جہاں سوز کے لشکر میں بھی غز تھے اور سلطان سنجر سے مقابلے کے وقت دوسرے ترکی لشکر کے ساتھ غز بھی سلطان سنجر کے ساتھ جاملے۔ شار اور سقران قبیلے کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی غز تھے۔ خاص کر شاروں سے غوریوں کے اچھے تعلقات تھے۔ بعد کے دور میں بھی غز غوریوں کے لشکر میں شامل تھے۔ سلطان جلال الدین علی کے لشکر میں بھی غز شامل تھے۔ [3]
  • ہنوں کو افغانستان سے نکالنے میں ترکوں نے ساسانی فرمانروا کی مدد کی تھی۔ مگر جلد ہی اس علاقے پر ان کا اقتدار قائم ہو گیا تھا۔ برہمن شاہی یا ہندو شاہی سے پہلے جو خاندان حکمران تھا اس کو ترک بتایا جاتاہے۔ اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ ان کے ناموں میں کلمہ تگین شامل تھا۔ اس خاندان کی یاد گار زابلستان میں تگین آباد شہر تھا۔ جو انھوں نے آباد کیا تھا۔ اس کے محل وقوع کا اب تعین نہیں کیا جاس کا ہے۔ غزنی کا ابتدائی نام گنجہ یا غزنک بتایا جاتا ہے یہ بھی غالباً غز کا معرب ہے اس کو بھی غالباً غزوں نے بسا یا تھا۔
اوغوز ترک
انتظامی تقسیم
قابل ذکر
قازقستان میں اوغوز یابگو ریاست، 750-1055
اوغوز ترک قومی نشان

تیروہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں شاہان خوازم کی قوت اپنے شباب پر تھی وہ ایران، خراسان، شام اور عراق میں سلجوقیوں کے کئی مقبوضات پر قابض ہو چکے تھے ان کا منصوبہ ایشیا کی تمام اسلامی سلطنتوں کو فتح کرنا تھا لیکن عین وقت پر جبکہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے تیار تھے چنگیز خانی طوفان نے خوارزم شاہی سلطنت کو تہ و بالا کرکے ان کے تمام منصوبے خاک میں ملادیئے۔ اس سلطنت کی تباہی کے بعد ترک قبائل جنوب کی طرف بھاگے ان میں سے بعض ایران اور شام پہنچے اور وہاں اقتدار حاصل کیا جو ترکمانی کہلائے۔ بعض ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں سے آملے۔ انہی ترک قبائل میں اپنا وطن چھوڑ کر ما رے مارے پھرنے والے عثمانی ترکوں کے آباء و اجداد کا قبیلہ بھی تھا جو اوغوز قبیلے کا ہی ایک جزو تھا۔ اس قبیلہ کے سردار کا نام سلیمان شاہ تھا۔ ایک روایت کے مطایق یہ خراسان کے شہر ماہان میں آباد ہوا لیکن منگولوں کے حملے کے باعث یہاں سے نکل کر مغرب کی جانب ہجرت کی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 964۔ 205۔ 145)
  2. (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 745۔ 536۔ 246)
  3. (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 526۔ 396۔ 807)