اويمياكون
اویمیاکون (لاطینی: Oymyakon) روس کا ایک گاؤں ہے۔ [3]
Location of اويمياكون لوا خطا ماڈیول:Infobox_mapframe میں 86 سطر پر: bad argument #1 to 'sqrt' (number expected, got nil)۔ | |
Location of اويمياكون | |
متناسقات: 63°27′46.6103″N 142°47′13.0895″E / 63.462947306°N 142.786969306°E | |
ملک | روس |
بانی | propertyreference |
بلندیحوالہ | property میل ( | Formatting error: invalid input when rounding فٹ)
آبادی | |
• تخمینہ (2018)reference | property |
نام آبادی | property |
منطقۂ وقت | property[1] (UTC+property) |
پوسٹل کوڈ[2] | properties |
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ آپ کے شہر میں واقعی سردی آگئی ہے تو ذرا روس کے اس گاؤں کے بارے میں جان لیں جس کے بعد آپ اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
روس میں ایک ایسا گاؤں موجود ہے جہاں درجہ حرارت منفی 71 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے اور جنوری کے مہینے میں یہاں کا اوسط درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔
اس گاؤں کا نام اویمیا کون ہے اور 1924 میں یہاں کا درجہ حرارت منفی 71.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا۔
یہ دنیا کا سرد ترین علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ مستقل طور پر دنیا کے ٹھنڈے ترین علاقے میں رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
لیکن اس علاقے میں رہنا اتنا بھی آسان نہیں، مری اور کوئٹہ جیسے علاقوں میں منفی 6 یا 7 پر کاروبار زندگی ٹھہر جاتا ہے جبکہ کراچی میں تو 10 یا 12 ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی لوگ گھروں سے نکلنا کم کردیتے ہیں۔ تو پھر یہاں کے لوگ اتنے سرد خطہ زمین پر زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر اموس چیپل نے اس گاؤں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا اور انھوں نے اپنے سفر کے دوران چند انتہائی دلچسپ تصاویر بھی کھینچیں۔ بورڈ پانڈا کی رپورٹ کے مطابق فوٹو گرافر اموس چیپل نے بتایا کہ ’جب میں پہلی بار منفی 47 ڈگری سینٹی گریڈ پر باہر نکلا تو میں ایک باریک پتلون پہنا ہوا تھا، مجھے ایسا لگا کہ ٹھنڈ میرے پاؤں سے چمٹ رہی ہے، کئی بار ہونٹوں کے درمیان موجود میرا لعاب بھی جم گیا جس سے میرے ہونٹ زخمی ہوئے‘۔
فوٹو گرافر نے کہا کہ سردی کی وجہ سے ان کے کیمرے کا فوکس اور زوم رنگ بھی جم جاتے تھے۔ زمین پر برف جمی ہونے کی وجہ سے گھر میں بیت الخلاء بنانا ممکن نہیں لہٰذا انھیں باہر ہی بنایا جاتا ہے۔ گاؤں کے مال مویشیوں کو جمع کرکے رات کے وقت ایک ہی جگہ پر بند کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی گرم رہ سکیں۔ مویشیوں کو چرنے کے لیے ہری گھاس کی بجائے برف میں ڈھکی جھاڑیوں پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں میں یہ ایک ہی دکان ہے لیکن اس میں ضرورت کا ہر سامان مل جاتا ہے اور تمام گاؤں والے یہیں سے خریداری کرتے ہیں۔ گاڑیوں کو گرم گیراج کے اندر کھڑی کرنا لازمی ہے اگر کوئی گاڑی کھلے آسمان تلے ہی بند کردی جائے تو اس کا دوبارہ اسٹارٹ ہونا مشکل ہوجاتا ہے تاہم اگر باہر گاڑی کھڑی کرنا ضروری ہو تو لوگ اس کا انجن بند کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس گاؤں میں سردی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر طرف صرف برف ہی برف نظر آتی ہے اور لوگ سبزہ دیکھنے کے لیے ترس جاتے ہیں۔ گاؤں والوں کو گرمی پہنچانے کے لیے ایک چھوٹا سا ہیٹنگ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ شدید سردی کی وجہ سے مچھلیوں کے خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں، لوگ بغیر ریفریجریٹر کے مہینوں انھیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ کیا آپ اس گاؤں میں جاکر کچھ دن رہنا پسند کریں گے؟ جہاں جنوری میں اوسط درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور آنکھوں کی پلکوں میں چار دیواری سے باہر نکلتے ہی برف جم جاتی ہے۔ روس کے علاقے سائبریا میں واقع اس گاﺅں میں اس سال اتنی سردی پڑی کہ وہاں نصب کیا جانے والا الیکٹرونک تھرما میٹر بھی منفی 62 ڈگری سینٹی گریڈ پر دم توڑ گیا۔ موسمیاتی مرکز نے اس جگہ کا درجہ حرارت منفی 59 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا مگر مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ درجہ حرارت درحقیقت منفی 67 ڈگری تک گیا جو اب تک ریکارڈ ہونے والے کم ترین درجہ حرارت سے ایک سینٹی گریڈ ہی کم ہے۔ اور وہ ریکارڈ بھی اسی گاﺅں میں 1933 میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اویمیا کون نامی اس گاﺅں میں سیاحوں کو درجہ حرارت سے آگاہ رکھنے کے لیے گذشتہ سال الیکٹرونک تھرما میٹر نصب کیا گیا تھا مگر گذشتہ دنوں وہ منفی 62 ڈگری پر پھٹ گیا۔
سائبرین ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق انتہائی شدید ٹھنڈ کے نتیجے میں تھرمامیٹر ٹوٹ گیا۔ اس گاﺅں میں 1920 کی دہائی میں پانچ سو افراد بسنے آئے تھے جو بنیادی طور پر چرواہے تھے اور انھوں نے اس گاﺅں کو نام دیا جس کا ترجمہ ہے ' وہ پانی جو کبھی جمتا نہیں'۔ ویسے تو دنیا کا سرد ترین مقام انٹار کٹیکا ہے مگر وہاں کوئی مستقل انسانی آبادی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جگہ پر رہنے والوں کو دنیا کے سرد ترین مقام پر رہنے کا اعزاز دیا گیا ہے۔ یہاں کے باسی اپنی گاڑیوں کو سرد موسم میں ہر وقت آن رکھتے ہیں کیونکہ بند ہونے کی صورت میں وہ دوبارہ اسٹارٹ نہیں ہو سکے گی۔ یہاں کسی کی موت کی صورت میں تدفین کا عمل بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ برف اتنی سخت ہوتی ہے کہ گڑھا کھودنا آسان نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے پہلے تدفین کے مقام پر آگ جلائی جاتی ہے اور پھر پگھلی ہوئی برف کو ایک طرف کرکے چند انچ کا گڑھا کھودا جاتا ہے، یہی عمل کئی دن تک دہرا کر گڑھا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کسی کو دفن کیا جاسکے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Об исчислении времени"۔ Официальный интернет-портал правовой информации (بزبان الروسية)۔ 3 June 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2019
- ↑ Почта России. Информационно-вычислительный центр ОАСУ РПО. (روسی ڈاک). Поиск объектов почтовой связи (پوسٹل مواد کی تلاش)
- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Oymyakon"
|
|