اکبر اسکول
(آرٹ) ہمایون کی طرح اکبر اعظم نے بھی فن مصوری کے ابتدائی درس لیے۔ شاہی مصوروں کے کام میں دلچسپی لی اور ان کے لیے کئی سہولتیں مہیا کیں۔ اس نے شاہی کتب خانے میں ایرانی اور ہندوستانی مسودوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا۔ شاہی خوش نویسوں اور مصوروں کو ان کی نقل کرنے پرمقرر کیا اوران کی حوصلہ افزائی کی۔ عہد حکومت کے تاریخی واقعات کوبھی مصور کیا گیا۔ بڑے بڑے عہدے داروں اور نامور راجاؤں اور سپہ سالاروں کی تصویریں بنائی گئیں۔
فتح پور سیکری کی بنیاد آرٹ کی تاریخ کا نیا باب ہے۔ عمارات کی تعمیر کے حکم 1569ء میں صادر ہوئے اور مصنف، شاعر، مورخ، فلسفی سب یہاں آخر جمع ہوئے۔ مذہبی مباحثوں میں مسیحی پادریوں نے بھی حصہ لیا اور آخر کار اکبر کا دین الہٰی ظہور پزیر ہوا۔
علم النفس کے ساتھ ساتھ فن مصوری اور فن تعمیر کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ معمار، سنگتراش، ملک کے ہر حصے سے جوق در جوق آنے لگے۔ عمارات کی دیواروں پر تصاویر کافی خستہ حالت میں دستیاب ہوئی ہیں۔ یہ تصاویر مکمل طور پر ہندوستانی جذبے کا عکس ہیں۔ فتح پور سیکری میں بادشاہ نے مصوروں کے لیے خاص محکمہ قائم کیا۔ وہ خود ان تصاویر کا معائنہ کرتا اور مصوروں کو خلعت اور خطاب عطا کرتا تھا۔
اکبر نامہ جس میں اکبر کے عہد کے حالات قلم بند ہیں کو بھی مصور کیا گیا ہے۔ تمام واقعات حقیقت پر مبنی ہیں۔ شکاری مناظر، درباری محفلیں، لڑائیوں کے میدان، سفیروں کی آمد، غرض ہر پہلو حقیقت کا مظہر ہے۔
ابوالفضل نے اکبری مصوروں کی بہت تعریف کی ہے اور آئین اکبری میں ان کی تعداد 150 کے قریب بتائی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ہندو مصورین کی ہے۔ اکبری اسکول کے چند مشہور مصور یہ تھے :
میر سید علی، خواجہ عبد الصمد، فرخ بیگ قلمق، فرخ چیلا، ابراہیم مسیکن، عنایت، عبد اللہ، تلسی، سانوالہ، کیوخرو، تلسی خرد، سورج داس، سرُجن، شاہوداس، دسونت، چترمنی، بساون، بھاگوان، بالچند، جمشید چیلا۔