اکبر الہ آبادی

انیسویں صدی کے مشہور اردو شاعر جو طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے باعث مشہور ہیں۔

الہٰ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید اکبر حسین رضوی تھا اور تخلص اکبر۔ آپ 16 نومبر1846ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہو گئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھر منصف مقرر ہوئے۔ 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہو گئے۔ 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ انھوں نے جنگ آزادی ہند 1857ء، پہلی جنگ عظیم اور گاندھی کی امن تحریک کا ابتدائی حصہ دیکھا تھا۔

اکبر الہ آبادی

معلومات شخصیت
پیدائش 16 نومبر 1846ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الہ آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 ستمبر 1921ء (75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الہ آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش الہ آباد   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
صنف شاعری
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

فن شعر و سخن میں وحید الہ آبادی سے اصلاح لی، جاننا چاہیے کہ اکبر الہ آبادی اور شاہ اکبر داناپوری دونوں ہم سبق ہیں، ایک ہی استاد وحید الہ آبادی کے شاگرد اور ایک ہی پیر حضرت مولانا شاہ قاسم ابوالعلائی داناپوری کے مرید تھے اور حضرت قاسم شاہ اکبر داناپوری کے چچا اور پیر و مرشد تھے۔ شاہ اکبر داناپوری اپنی رباعی میں اس کا ذکر کرتے ہیں

شاگرد وحید کے ہیں دونوں اکبر

ہم مشق بھی دونوں رہے ہیں اکثر

لیکن قدرت کا صاد ان پر ہی ہوا

پتھر پتھر ہے اور جوہر جوہر (جذبات اکبر)

اسی طرح اکبر الہ آبادی کا ایک خط شاہ اکبر داناپوری کے نام ملتا ہے جو کتاب نذر محبوب میں درج ہے۔

اکبر الہ آبادی نے اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہو گئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا۔

ھڈھھدھر

اقتباسات

ترمیم
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے؟ فقط بازاری ہے

جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے؟ فقط سرکاری ہے
صیاد ہنر دکھلائے اگر تعلیم سے سب کچھ ممکن ہے
بلبل کے لیے کیا مشکل ہے اُلو بھی بنے اور خوش بھی رہے

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا

شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اُڑو چرخ پہ جھولو
لیکن ایک سخن بندہٴ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

اکبر قدیم روایات کے حامی تھے یہی وجہ ہے کہ دور جدید کی تبدیلیوں کا شکوہ ان کی زبان پر رہتا

بے پردہ نظر ائیں مجھے چند بیبیاں اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا

پوچھا جوان سے آپ کا پردہ کدھر گیا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

وفات

ترمیم

آپ کا انتقال 1921ء میں اُسی شہر میں ہوا جہاں آپ پیدا ہوئے تھے۔

حوالہ جات

ترمیم