شاہ اکبر داناپوری

بہار کے مشہور صوفی شاعر

حضرت شاہ اکبر داناپوری (پیدائش 1843ء -وصال 1909ء) بہار کے مشہور صوفی شاعر ہیں۔ [1]

حضرت شاہ اکبر داناپوری کی اسکیچ تصویر جسے شمس الدین شبن نے آگرہ میں بنائی تھی۔

پیدائش اور معاشرتی زندگی

ترمیم

آپ 27 شعبان 1260ھ موافق 11ستمبر 1843ء بروز بدھ بوقت اشراق، نئ بستی، آگرہ میں پیدا ہوئے[2]۔ اکبرآباد میں پیدائش کی وجہ سے آپ کا نام محمد اکبر رکھا گیا[3]۔ معاشرتی زندگی ہمیشہ سادی رہی، لباس میں بھی سادگی تھی، ہمیشہ خالطہ دار پائجامہ، نیچا کرتا، شانہ پر بڑا رومال اور پلہ کی ٹوپی اورکبھی انگرکھا زیب تن کرتے تھے[4]۔ بہت خلیق اور منکسر مزاج تھے۔[3]

خاندانی پسِ منظر

ترمیم

آپ کا سلسلہ نسب منیر شریف کے مشہور بزرگ مخدوم عبد العزیز ابن امام محمد تاج فقیہ سے جا ملتا ہے[3]۔ خانوادہ تاج فقیہ کے ساتھ ساتھ بہار کی مشہور مخدومہ ہدیہ عرف بی بی کمال (کاکو) کی آپ سیدھی اولاد ہیں اور اس طرح آپ کو حضرت شہاب الدین پیر جگجوت کی ذریت میں بھی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ آپ کے اجداد میں سلسلہ چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ کے ممتاز بزرگ شامل ہیں جیسے:

شیخ سلیمان لنگر زمین۔

مخدوم احمد چشتی۔

مخدوم اخوند شیخ چشتی۔

شاہ عنایت اللہ چشتی۔

شاہ امین اللہ شہید۔

شاہ طیب اللہ  نقاب پوش۔

شاہ بہاؤالحق چشتی[1]۔

آپ کو بہار شریفموڑہ تالاب کے مشہور بزرگ مخدوم لطیف الدین بندگی کی ذریت میں ہونے کا بھی شرف حاصل تھا، آپ کا پورا نانیہال سہروردی نسبت سے معمور تھا[1]۔ شاہ اکبر داناپوری کے جد امجد حضرت شاہ تراب الحق چشتی تیرہویں صدی ہجری کے اوائل میں موڑہ تالاب سے شاہ ٹولی داناپور مصاہرت کر گئے ۔ اس کا پس منظر یوں ہیں کہ مخدوم یسین چشتی کے پوتے حضرت شاہ غلام حسین منعمی کی صاحبزادی بی بی حفیظ النسا سے شاہ تراب الحق چشتی کا عقد ہوا۔ حضرت غلام حسین اپنے داماد کو بے حدعزیز رکھتے تھے۔ ان کی اصرار پر آپ موڑہ تالاب سے داناپور آباد ہوئے اور یہیں یہ پھر داناپور میں حضرت اکبر کا خانوادہ پھلا پھولا۔[4]

تعلیم و تربیت

ترمیم
 
حضرت شاہ اکبر داناپوری کے دست خاص کا لکھا ہوا مکتوبات ابوالعُلا کا ایک نایاب اور خوش خط نسخہ

شاہ اکبر داناپوری جب پانچ برس کے ہوئے تو ان کے چچا حضرت مولانا شاہ محمد قاسم  ابوالعلائی داناپوری نے آگرہ میں ان کی بسم اللہ خوانی کرائی اور آگرہ کی جامع مسجد میں تعلیم کے لیے داخل کرایا۔جب تھوڑے بڑے ہوئے تو چچا محترم نے خود سے تعلیم ظاہری و باطنی دینا شروع کیا۔ آپ اپنے چچا اور والد مخدوم سجاد پاک کے علاوہ غلام امام شہید اکبرآبادی، مفتی صدر الدین اکبرآبادی وغیرہ کی بھی صحبت اٹھائی[4]۔ اسی طرح فن شعر و سخن کی ابتدا میں ناسخ کے شاگرد غلام امام اعظم الہ آبادی کے شاگرد ہوئے پھر بعد میں وحید الہ آبادی کے مستقل شاگرد ہوئے، آپ مرزا ماہ اکبرآبادی اور مرزا عنایت علی مہر اکبرآبادی کی صحبت سے بھی مستفید تھے۔[2]

بیعت و خلافت

ترمیم

آپ کی تعلیم و تربیت اپنے عم اقدس مولانا شاہ قاسم ابوالعلائی کے زیر تربیت ہوئی انھیں سے شرف بیعت حاصل ہوا اور اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی، یہ بزرگ اپنے زمانے کے اولیائے کبار میں شامل تھے۔ بڑے بڑے اولیا و اصفیا آپ کے درس میں بیٹھا کرتے تھے۔حضرت اکبر کو اپنے چچا اور اپنے والد مخدوم سجاد پاک کے علاوہ شاہ ولایت حسین دلاوری منعمی، شاہ کاظم حسین چشتی، شاہ عطا حسین فانی اور شاہ علی حسین ابوالعلائی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔[5]

سجادگی اور سفر حج

ترمیم
 
حضرت شاہ اکبر داناپوری کی خانقاہ

شاہ اکبر داناپوری بحیثیت سجادہ نشیں بر صغیر میں غیر معمولی شہرت کے حامل ہیں، آپ سلسلہ ابوالعلائیہ کے باکمال سجادہ نشین گذرے ہیں۔1881ء میں باضابطہ طور پر آپ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادہ نشین ہوئے۔ اس دوران برصغیر کی ممتاز ہستیاں آپ کی سجادگی میں شامل ہوئی تھیں۔[3]، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے علاوہ خانقاہ موڑہ تالاب کی سجادگی بھی حاصل تھی جسے آپ بحسن و خوبی تاعمر انجام دیتے رہے۔ حضرت اکبر کے بعد ان کی اولاد میں سجادگی چلی، اب اس سجادہ پر حضرت اکبر کے پرپوتے حاجی سید شاہ سیف اللہ ابوالعلائی داناپوری سجادہ نشیں ہیں ۔[5]

حضرت اکبر اپنی سجادگی کے دو برس بعد 1884ء میں سفر حج پر گئے۔ آپ کا یہ سفر بڑا تاریخی اور یادگار رہا ۔جدہ، مکہ اور مدینہ میں ان کے والد کے بیشتر معتقد وہاں موجود تھے۔اس لیے انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ کےذمہ داران اور بڑے بڑے علما وشیوخ کے ساتھ تاریخی ملاقات رہی۔اس دوران دو مرتبہ حضرت اکبر کو خانہ کعبہ کے اندر کی داخلی نصیب ہوئی[1]، اکبر نے اس سفر حج میں عرب کے حالات کا بھر پور جائزہ لیا اور واپس آنے کے بعد تاریخ عرب کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔[6]

شعری کارنامہ

ترمیم
 
حضرت شاہ اکبر داناپوری کے دست خاص کی لکھی ہوئی ان کی ایک غزل

شروع سے ہی آپ کی طبیعت میں شعر و سخن کا شوق موجود تھا، اہل علم کی صحبت نے مزید جلا بخشی خواجہ حیدر علی آتش کے یادگار وحید الہ آبادی سے بے حد متاثر ہوئے اور انھیں کی شاگردی اختیار کرلی، واضح ہوکہ اکبر الہ آبادی اور شاہ اکبر داناپوری دونوں ایک ہی استاد کے شاگرد اور ایک ہی پیر کے مرید تھے، اکبر الہ آبادی کا خط بھی شاہ اکبر داناپوری کے نام ملتا ہے جس میں اکبر نے آپ کی بزرگی کا اعتراف کیا ہے[1] شاہ اکبر داناپوری زیادہ تر صوفیانہ کلام کہتے تھے اور اسی فن میں انھیں مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی شاعری اہل دل کے لیے گرمئ دل کا سامان بنی، آپ کے صوفیانہ کلام کو قوال نہایت عقیدت مندی سے خانقاہوں میں گاتے ہیں، معروف گلوکارہ زہرہ بائی آگرے والی بھی حضرت اکبر کی بڑی معتقدہ تھیں اور ان کے عارفانہ کلام گایا کرتی تھیں، اکبر کے قلم سے 9000 نو ہزار اردو اشعار ظاہر ہوئے ہیں جن میں قصیدہ، مثنوی، آشوب شہر، مسدس، قطعہ تاریخ، سہرے، رباعیاں، مخمس، مثلث، غزل، منقبت اور حمد و نعت کا بڑا ذخیرہ جمع ہے ۔ آپ کی فارسی شاعری بھی لاجواب ہے جو جذبات اکبر کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ شاہ اکبر داناپوری لوگوں کو بیدار کرنا چاہتے تھے اپنے ماضی سے آشنائی دلانا چاہتے تھے انھوں نے مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے بہت کچھ قیمتی باتیں لکھیں ہیں، ہندوستان کی آزادی کے تعلق سے ہنر نامہ کے عنوان سے اکبر کی یہ قیمتی نظم ہندوستان بھر میں گائی جاتی تھیں، ان کا رجحان تصوف کی طرف زیادہ تھا اس لیے کلام زیادہ تر عارفانہ ہے۔ آپ کا پہلا دیوان تجلیات عشق 1316ھ میں آگرہ سے شائع ہوا جب کہ دوسرا دیوان جذبات اکبر کے عنوان سے انتقال کے بعد 1915ئ میں آگرہ سے شائع ہوا اس کے علاوہ باغ خیال اکبر میں بھی بیشتر کلام مل جاتے ہیں۔[5]

نثری کارنامہ

ترمیم

شاہ اکبر داناپوری کا نثری کارنامہ بڑا شاندار رہاہے، وہ بنیادی طور پر نثر نگاری کے ہی شہسوار تھے اور تمام عمر تصنیف و تالیف میں گزار دی، آپ نے تاریخ، تذکرہ، ادب، اسلامیات، تصوف اور عقائد پر پچاسوں کتابیں لکھی ہیں جو برصغیر ہند و پاک میں کافی مقبول و منظور ہوئی، سر سید احمد خان کے عقائد نیچری پر دلائل سے مزین شور قیامت لکھی جو کافی مقبول ہوئی اس طرح جب ایک عیسائی مورخ  نے خدا پر جھوٹ باندھا تو اس کے جواب میں خدا کی قدرت نامی کتاب لکھی۔1893ء میں مولوی سمیع اللہ سی ایم جی کے بیٹے مولوی حمید اللہ کی شادی کی دعوت پر دہلی تشریف لے گئے، یہ وہ وقت تھا جب دہلی برباد ہو چکی تھ اس دوران اکبر نے دہلی کا جائزہ لیا اور دیگر مزارات و عمارات میں حاضری دی اس 20 روز کے سفر کو آپ نے قلمبند کر لیا جسے بعد میں آپ کے معتقدین نے سیر دہلی کے نام سے شائع کرادیا یہ کتاب دہلی کی تاریخ پر بڑی مفید ہے۔ اسی طرح حضرت اکبر کی دوسری بڑی تصنیف مولد فاطمی، ادراک، ارادہ، سرمۂ بینائی، التماس، تحفہ مقبول، آل و اصحاب، رسالہ غریب نواز، نذر محبوب، احکام نماز وغیرہ نے بھی خوب پزیرائی حاصل کی۔

شاہ اکبر داناپوری کی نثری خدمات میں اشرف التواریخ کی تین جلد اور تاریخ عرب کو خاصی شہرت حاصل ہوئی، برصغیر میں اشرف التواریخ کو اولیت مقام حاصل ہے کہاجاتا ہے کہ اس وقت کے علما اشرف التواریخ کو اپنے تکیے کے پاس لے کر سوتے تھے کہ کب اس کی ضرورت پڑ جاے، تینوں جلد ملا کر 1765 صفحات ہوتے ہیں، اشرف التواریخ کے علاوہ دوسری چھوٹی بڑی کتابوں کو ملا کر فن تاریخ میں آپ نے دنیاے ادب کو 3000 صفحات سے بھی زائد دیے ہیں، بحیثیت مورخ شاہ اکبر داناپوری کا کارنامہ قابل تسلیم ہے۔

اشرف التواریخ (حصہ اول) اسرار نبوت کے موضو ع پر 1904 ء میں 655 صفحات پر آگرہ پریس سے شائع ہوئی ۔

اشرف التواریخ ( حصہ دوم ) عہد رسالت و سایہ خلافت پر 1907ء میں 775 صفحات پر آگرہ پریس سے شا ئع ہوئی۔

اشرف التواریخ ( حصہ سوم)میں خلفاے راشدین کا تذکرہ ہے یہ 1910ء میں 360 صفحات پر آگرہ پریس سے شائع ہوئی۔

تاریخ عرب ( حصہ اول) 272 صفحات پر مشتمل 1900ء میں آگرہ سے طبع ہوئی۔

تاریخ عرب کی دوسری جلد 1000 صفحات پر مشتمل تھا جس میں انبیا کے حالات شامل تھے مگر یہ طبع نہ سکی۔[5][1]

کتابیں

ترمیم

آپ کثیر التصانیف بزرگ تھے، آپ کی اکثر تصانیف آپ کی زندگی ہی میں شائع ہوکر مقبول ہو چکی تھی، مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہے۔

  • شور قیامت     (مطبع ابوالعلائی پریس، آگرہ)
  • چہل حدیث    (مطبع یونین برقی پریس،پٹنہ)
  • خدا کی قدرت
  • نذر محبوب        (مطبوعہ 1888ء آگرہ)
  • ادراک               (مطبوعہ1891ء آگرہ)
  • ارادہ                (مطبوعہ 1893ء آگرہ)
  • دل                   (مطبوعہ 1894ء آگرہ)
  • تجلیات عشق     (مطبوعہ 1898ء آگرہ)
  • تاریخ عرب         (مطبوعہ1900ء آگرہ)
  • احکام نماز         (مطبوعہ1902ء آگرہ)
  • تاریخ خواجگان    (مطبوعہ 1902ء آگرہ)
  • مثنوی روح (مطبع عثمانی، آگرہ)
  • اشرف التواریخ اول (مطبوعہ1904ء آگرہ)
  • التماس
  • اشرف التواریخ دوم (مطبوعہ1907ء آگرہ)
  • اشرف التواریخ سوم (مطبوعہ1910ء آگرہ)
  • جذبات اکبر    (مطبوعہ 1915ء آگرہ)
  • ناد علی          (مطبوعہ 1938ء الہ آباد)

آپ کے ملفوظات ارشاد فیض بنیاد معروف بہ دل کے نام سے نثار اکبرآبادی نے جمع کیا ہے، طالبین و سالکین کے لیے یہ رسالہ مطمئن بخش ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے مکتوبات کا مجموعہ بھی تیار ہوا جسے نسیم ہلسوی کے صاحبزادے عبد الوکیل اکبری ہلسوی نے جمع کیا۔[1]

مریدین و اسفار

ترمیم
 
حضرت شاہ اکبر داناپوری کے دست خاص کی لکھی ہوئی فیضی کی ایک فارسی غزل

شاہ اکبر داناپوری کے مریدین کا حلقہ زیادہ تر آگرہ، اجمیر، حیدرآباد، دہلی، لاہور اور کراچی تھا ، حضرت اکبر ان جگہوں کا سالانہ دورہ بھی کرتے تھے، خواجہ معین الدین چشتی کے عرس میں اجمیر اور سیدنا امیر ابوالعلا کے عرس میں آگرہ ہمیشہ حاضر ہوکر وہاں پابندی سے عرس منعقد کرتے رہے اس کے علاوہ سید حسن زنجانی، بابا فریدگنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیا، بو علی شاہ قلندر اور ابو محمد صالح باقر علی شاہ (دموہ) سے بھی بڑی انسیت و محبت تھی یہاں بھی آپ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ کو 1281ھ میں مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ کی مسجد خضر میں حضرت خضر کا دیدار بھی نصیب ہوا، اسی طرح آپ کو خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ میں حضرت عمر فاروق کا دیدار بھی نصیب ہوا ہے۔[3][4][5]

خلفا و معاصرین

ترمیم

آپ کے چند معروف خلفا کے نام یہ ہیں۔

شاہ محسن ابوالعلائی داناپوری ( صاحبزادے و جانشین)، نثارعلی ابوالعلائی اکبرآبادی، حاجی عبد اللہ اکبری الہ آبادی، مولانا شاہ فصاحت حسین تلہاڑوی، مولانا عبد المجید ابوالعلائی افغانی، شاہ فرحت علی ابوالعلائی بھدولوی، مولانا شاہ واعظ الدین حسین، شاہ ظفر ابوالعلائی، شاہ احمد حسین ابوالعُلائی وغیرہ[4]۔

شاہ اکبر داناپوری اپنے معاصرین میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے یہاں صرف ان کے نام درج کیے جاتے جنہیں شاہ اکبر داناپوری سے عقیدت تھی۔ امام احمد رضا خان، اکبر الہ آبادی، خدا بخش خان، فضل حق آزاد ، مولانا عبد القادر بدایونی، منشی ذکاو اللہ دہلوی، محبوب علی خان، نواب کلب علی خان،امیرعبد الرحمن خان، عثمان نوری پاشا، قاضی رضا حسین، امداد امام اثر، شاد عظیم آبادی، مولوی سید احمد دہلوی، وصی احمد سورتی، قاضی عبدالوحید، رنجورعظیم آبادی، شمشاد لکھنوی،محسن الملک، عبدالرحیم صادق پوری۔[1]

شاگرد

ترمیم
 
حضرت شاہ اکبر داناپوری کا دستخط

شاہ اکبر داناپوری کے حلقہ شاگردی میں کئی شعرا شامل تھے وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہے جاتے تھے، اسی شہرت کو سنتے ہوئے بیدم وارثی آگرہ آے اور شاہ اکبر داناپوری کی شاگردی اختیار کی جب کچھ ماہ گذرے تو بیدم وارثی کو اپنے شاگرد خاص نثار اکبرآبادی کے سپرد کر دیا۔حلقۂ مریدین و معتقدین کی طرح آپ کا حلقہ تلامذہ بھی بہار و اترپردیش اور راجستھان و حیدرآباد وغیرہ میں پھیلا ہوا تھا مشہور تلامذہ میں آپ کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری، نثاراکبرآبادی، حکیم سید غلام شرف الدین شفا، رفیق داناپوری، نیر داناپوری، نورعظیم آبادی، اختر داناپوری، حمد کاکوی، مبارک عظیم آبادی، مرزا الطاف علی سروش، عرفان داناپوری، مظاہر گیاوی، فضا اجمیری، شوق اجمیری، سیف فرخ آبادی، نصرداناپوری، الہامؔ داناپوری، یوسف داناپوری، بیتاب کراپی، بدرعظیم آبادی، لطف داناپوری، رحمت داناپوری، قمرداناپوری، کوثرداناپوری، یحیی داناپوری، عارف داناپوری، جوہر بریلوی، نازش عظیم آبادی، شیدا بہاری، علم گیاوی، قیس گیاوی، مست گیاوی، صہبا گیاوی، رونق گیاوی، ہندو گیاوی، ماہ داناپوری، قمرجہان آبادی، کاوش گیاوی شامل ہیں۔[1][5]

نکاح و اولاد

ترمیم

آپ کا نکاح آپ کے پیرومرشد مولانا شاہ قاسم ابوالعلائی کی خواہش سے شاہ ولایت حسین دلاوری منعمی کی صاحبزادی بی بی نعمیہ سے ہوا جن کے بطن سے چار صاحبزادی اور ایک صاحبزادے شاہ محسن داناپوری ہوئے، آپ کی چار صاحبزادی میں سے دو کم سنی میں فوت کرگئیں۔پہلی صاحبزادی کا نکاح شاہ عطاحسین فانی کے پوتے شاہ نظام الدین احمد سے ہوا اور دوسری صاحبزادی کا نکاح شاہ محمد غزالی ابوالعلائی کاکوی کے صاحبزادے شاہ نظامی اکبری کاکوی سے ہوا، دونوں صاحبزادی صاحب اولاد ہوئیں اور ان کی اولاد کراچی میں آباد ہیں۔[3]

وصال

ترمیم

آپ کا وصال 67 برس کی عمر میں 14 رجب المرجب 1327ھ موافق 1909ء بروز پیر عصر و مغرب کے درمیان خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ کے صحن میں ہوا اور اسی شب 9 بجے آستانہ مخدوم سجاد پاک میں تدفین ہوئی آپ کا مزار مقدس بندگان خدا کے لیے منبع فیوض و برکات ہے اور ہر سال اسی تاریخ میں سالانہ عرس ہوتا ہے۔[4][1][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ ریان ابوالعُلائی۔ انوار اکبری 
  2. ^ ا ب نثار اکبرآبادی۔ دل 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی۔ تذکرۃ الابرار 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث انجم اکبرآبادی۔ بزم ابوالعُلا 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث شاہ محفوظ اللہ ابوالعُلائی۔ حالات حضرت شاہ اکبر داناپوری 
  6. شاہ اکبر داناپوری۔ تاریخ عرب