اکبر علی شاہ
خواجہ اکبر علی شاہ کا شمار ضلع جہلم کے بلند پایہ اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ عارف کامل تھے۔
خواجہ اکبر علی شاہ | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (1820ء) |
وفات | (3 مئی 1888ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
مرتبہ | |
مقام | سنگھوئی جہلم |
پیشرو | غلام حسین شاہ |
جانشین | سلطان علی شاہ |
ولادت
ترمیمخواجہ اکبر علی شاہ المعروف چنبی والی سرکار کی ولادت 1820ء میں موضع رنمل ضلع گجرات میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام غلام حیدر شاہ تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب حاجی محمد نوشہ گنج بخش سے جا ملتا ہے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کو آپ کے چچا غلام حسین شاہ نے اپنے بھائی سے یہ کہہ کر مانگ لیا کہ یہ بچہ میرا ہے۔
تعلیم
ترمیماکبر علی شاہ کی تمام تعلیم و تربیت آپ کے تایا حاجی غلام حسین شاہ کی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ آپ نے علوم ظاہری کی تمام تعلیم اور کتابیں نہایت دل جمعی اور محنت شاقہ سے پڑھیں۔ آپ نے تحصیل علم میں کمال دسترس حاصل کر کے اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم و فاضل کہلائے اور شہرت پائی۔ آپ کے زمانے میں آپ کی نظیر کا عالم ملنا مشکل تھا۔
بیعت و خلافت
ترمیماکبر علی شاہ جوانی کے عالم میں ہی اپنے آبائی گاؤں موضع رنمل شریف ضلع گجرات سے ہجرت کر کے اپنے تایا حاجی غلام حسین شاہ کے ہاں موضع سنگھوئی ضلع جہلم میں تشریف لے آئے تھے۔ آپ تایا حاجی غلام حسین شاہ کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ بیعت ہونے کے بعد آپ کی عبادت و ریاضت اور محنت شاقہ اور کثرت نوافل، ذکر و اذکار کی کثرت کو دیکھتے ہوئے آپ کے پیر و مرشد حاجی غلام حسین شاہ نے آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
سیرت و کردار
ترمیمخواجہ اکبر علی شاہ انتہائی خوبصورت، وجیہ، دراز قد اور ملنسار و اخلاق محمدی کا مکمل نمونہ تھے۔ آپ اپنے زمانے کے عارف کامل، صاحب تقوی اور عبادت و ریاضت میں یکتا روزگار تھے۔ آپ نے تمام زندگی خدا پاک کے احکامات کی پیروی اور سنت رسول پر عمل پیرا رہے۔ آپ اپنے وقت کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ خطہ پوٹھوہار کو آپ نے نہ صرف اپنا مسکن بنایا بلکہ یہاں کے لوگوں کو خدا پاک کے در تک رسائی بھی دلا ئی۔ جو بھی آپ کے پاس ایک مرتبہ آ جاتا وہ آپ کی صورت اور سیرت و کردار کو دیکھ کر آپ ہی کا ہو کر رہ جاتا۔ آپ نے ہزاروں بے راہوں کو راہ ہدایت دکھائی اور ان کے سینوں کو نور ایمان سے منور کیا۔ آپ سیف زبان تھے جو فرما دیتے تھے وہ خدا پاک کے فضل وکرم سے پورا ہو کے رہتا۔
کرامت
ترمیمخواجہ اکبر علی شاہ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کے پاس ایک ابلق رنگ کی گھوڑی تھی جسے پنجابی زبان میں چنبی کہتے ہیں۔ آپ ہمیشہ اس گھوڑی پر سفر کرتے تھے۔ موضع داراکیال گوجر خان تحصیل میں آپ اپنے عقیدت مندان کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو چوہدری محمد علی کی زوجہ مسماة بیگم بی بی نے گھوڑی کی لگام تھام لی اور نہایت احترام سے عرض کرنے لگی کہ حضور میری گود خالی ہے میرے واسطے دعا فرمائے۔ آپ اس بی بی کی بات سن کر ایک لمحہ کے لیے مراقبہ میں چلے گئے۔ بعد مراقبہ تقدیر کا لکھا دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ آپ کی خاموشی کو دیکھ کر صادق الیقین بی بی نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تو آپ کا بحر کرم جوش میں آ گیا۔ آپ گھوڑی سے نیچے اترے اور سجدہ ریز ہو گئے۔ سجدے سے سر اٹھایا اور گھوڑی سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے چنبی تیرے پیٹ میں جو بچہ ہے فی سبیل اللہ بی بی کو بخش دے۔ موقع پر دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس وقت حمل کے آثار نمودار ہوئے گئے تھے۔ بیگم بی بی کا جب بچہ پیدا ہوا تو سر سے لے کر کمر تک بالوں کے نشان موجود تھے۔ اس شخص نے عام انسانوں جیسی زندگی گزاری۔
وصال
ترمیمخواجہ اکبر علی شاہ ہمیشہ دو زانو نشست فرماتے تھے۔ اس لیے آپ کے پاؤں میں گٹے پڑ گئے تھے۔ گٹے عمر کے آخری حصے میں زخم کی صورت اختیار کر گئے تھے۔ آپ کو اس تکلیف کی وجہ سے اکثر بخار رہتا تھا تادم آخر نماز پنجگانہ کھڑے ہو کر ہی ادا فرماتے رہنا آپ کا معمول تھا۔ اکبر علی شاہ کا وصال 3 مئی 1888ء کو بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل ہوا۔ آپ کے صاحبزادے سید سلطان علی شاہ نے 1907 میں آپ کا مزار سنگھوئی قصبہ سے باہر بنوایا اور آپ کے جسد کو روضہ میں منتقل کیا گیا۔ اس وقت دیکھنے والوں نے دیکھا اور بیان کرتے ہیں کہ آپ کا جسم بالکل تر و تازہ تھا۔ ریش میں غسل کے قطرے موجود تھے۔ آپ کے جسم اطہر سے خوشبو آ رہی تھی۔ آپ کا مزار موضع سنگھوئی تحصیل وضلع جہلم میں مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کا سالانہ عرس 16 اور 17 ہاڑ کو ہر سال نہایت عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے۔
اولاد
ترمیمخواجہ اکبر علی شاہ کا ایک صاحبزادے کا ذکر کتب میں ملتا ہے۔
- سید سلطان علی شاہ (سجادہ نشین) [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 589 تا 591