اگیا بیتال یا چھلاوا اردو زبان میں عام طور پر کسی شریر، خبیث اور پریشان کرنے والی مافوق الفطرت ذات کے لیے ادا کیا جانے والا لفظ ہے۔ دلدلوں یا قبروں سے عموماً ایک قسم کی گیس نکلتی ہے، جب وہ ہوا میں پہنچتی ہے تو اسے آگ لگ جاتی ہے اور شعلہ نکلنے لگتا ہے جسے عام لوگ بھوت پریت سمجھتے ہیں۔

لفظ چھلاوا کی اردو میں موجودگی اپنے پس منظر میں سنسکرت کے لفظ چھلانگ سے قربت رکھتی ہے۔ عام طور پر اردو بولنے والے مسلمان بھی چھلاوا کو جن یا بھوت کی ایک قسم کہہ دیتے ہیں جہاں لفظ اول الذکر منسلک کرنا لسانی اور لغوی اعتبار سے غلط ہے کیونکہ اسلام میں جن اور تناسخ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور چھلاوا کے لفظ کو جن کی قسم سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ چھلاوے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طویل چھلانگیں مارنے والا ایک خبیث وجود ہوتا ہے جو اپنی حرکات سے انسانوں کو پریشان کرتا ہے ؛ اصل میں چھلاوے کا یہ تصور سنسکرت کے لفظ چھلانگ سے ہی آیا ہے اور سنسکرت کی لغات میں چھلاوا کے معنی مافوق الفطرت ہستی کے ساتھ ساتھ leap اور vanish یعنی غائب ہو جانے والے کے بھی آتے ہیں اسی غائب ہو جانے والے یا چھلانگیں مارنے والے کے تصور کی وجہ سے اردو میں یہ لفظ کسی شریر انسان اور کسی دھوکا یا فریب یا جُل دے جانے والے انسان کے لیے بھی مستعمل ہے۔

حوالہ جات ترمیم