بھوت (ghost) کا لفظ اپنے عام ترین مفہوم میں کسی جاندار (بطور خاص انسان) کے اپنی موت کے بعد اپنے جسمانی وجود سے باہر ظاہر ہونے پر ادا کیا جاتا ہے۔ اپنے اس بنیادی یا لغوی مفہوم کے علاوہ بھی یہ لفظ متعدد مواقع پر مستعمل ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا تصور جس میں کوئی جاندار یا جاندار نما (متحرک) شے، جسم یا ہَیولٰی تخیل کیا جاتا ہو بھوت کے زمرے میں ادا کر دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کے ملتے جلتے تصورات کے لیے چھلاوا اور آسیب کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ گو عام طور پر بھوت کے تصور میں کسی خبیث روح کا خیال شامل ہوتا ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا اور بعض اوقات اس کو نہایت معتبر افکار کے لیے بھی اختیار کیا جاتا ہے جیسے مسیحیت کے نظریۂ تثلیث میں عام طور پر اردو میں مقدس روح کا لفظ ملتا ہے لیکن انگریزی میں اس کو مقدس بھوت (holy ghost) بھی لکھا جاتا ہے اور یوں یہ لفظ مظہرِ اللہ (manifestation of God) کے نزدیک آجاتا ہے۔ بچوں کے قصے کہانیوں میں بھی ہمیں بھوت کا بے تحاشا ذکر ملتا ہے- اور اس بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بھوت درحقیقت انسان کا تخیل ہی ہے اور اس تخیل کے مطابق بھوت اپنے اندر بے پناہ طاقت رکھتا ہے اور مردانہ جنس کی سبھی خصوصیات اپنے اندر کمال درجے میں رکھتا ہے بعینہ ایسے ہی جیسے قصے ،کہا نیوں کی پریاں بے حد حسین ہوتی ہیں-

اسلام میں بھوت ترمیم

مذہب اسلام میں نا صرف یہ کہ بھوت بلکہ چڑیل، آسیب، چھلاوا اور دیو وغیرہ سمیت کسی بھی مافوق فطرت وجود کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ماسوائے جن کے۔ اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جن گو کہ عام طور پر غیر مرئی ہونے کی وجہ سے مافوق فطرت ہونے کے نزدیک محسوس ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں جن، اسلامی تصور کے مطابق فرشتوں اور انسانوں کی طرح اللہ کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہے جو انسان سے قبل وجود میں لائی گئی؛ یعنی جیسے فرشتوں کو اسلامی نظریے کے مطابق مافوق فطرت کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا اسی طرح جن بھی مافوق فطرت کے تصور میں شامل نہیں ہوتے۔ بھوت، اپنی اساس میں تناسخ (reincarnation) کے تصور سے وجود پاتے ہیں اور اسلام میں تناسخ نا قرآن سے ثابت ہے اور نا حدیث سے ۔

حوالہ جات ترمیم