ایسوسی ایشن فٹ بال میں اسلام
بعض فٹبال ایسوسی ایشنوں میں مسلمان کھلاڑی بھی کھیلتے ہیں اور ان کے اصول متعلقہ کلب قبول بھی کرتے ہیں۔
جولائی 2013ء میں، بی بی سی کے صحافی روب کولنگ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان کھلاڑی انگریزی فٹ بال ثقافت کو بدل رہے ہیں۔[1] رمضان میں روزوں کی پابندی کرنا، ان کی تربیت اور کھیلنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔[2] جبکہ کچھ کھلاڑی جوا اور سودی مالیاتی اداروں کے اشتہار اپنی ٹی شرٹ پر نہیں لگاتے، کیونکہ اسلام میں یہ دونوں چیزیں منع ہیں۔[3]
بعض مسلمان کھلاڑی فٹبال میں نسل پرستی کی خبروں کا حصہ رہے ہیں، جبکہ نشانہ بعض فٹ بال کلبوں نے مسلمان کھلاڑیوں کو بھی نسل پرستی کا نشانہ بنایا۔[4]
مقبولیت اور تنازعات
ترمیمایران
ترمیمایران میں فٹ بال تیل نکالنے والے برطانوی مزوروں نے متعارف کرایا اور 1920ء کی دہائی میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے اسے سرکاری طور پر ترقی دی۔ اگرچہ کھیلوں کا دیکھنا اور کھیلنا مذہبی مطالباتِ اسلامی جمہوریہ ایران کی وجہ سے متنازع رہے ہیں، مگر یہ کھیل ترقی کر رہا ہے۔[5]
فلسطین
ترمیمفلسطین میں فٹ بال برطانوی مینڈیٹ کے دور میں 1920ء-1948ء کے دوران متعارف ہوا۔ 2011ء میں ایک خواتین فٹ بال ٹیم جسے گرلز ایف سی کہا جاتا ہے، مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں مذاہب کی خواتین سے تشکیل دی گئی۔ مگر ان کے کھیلنے کے لباس پر اعتراضات ہونے لگے اور کہا گیا کہ یہ مردوں کا کھیل، کھیلتی ہیں۔ تاہم یہ ٹیم مقبول ثابت ہوئی۔[6]
فٹ بال اور نماز
ترمیمفٹ بال اور رمضان
ترمیم2010ء میں ایران کے کھلاڑی علی کریمی کو رمضان کے دوران روزہ توڑنے پر ان کو تہران میں قائم کلب اسٹیل اذان کی طرف سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ کریمی کو ایک تربیتی دور کے دوران پانی پیتے دیکھا گیا تھا، مگر اس نے رمضان تک یوہین کرنے سے انکار البتہ اس نے 40,000 ڈالر جرمانہ ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی، جس پر اسے بحال کر دیا گیا۔[7]
اسلام اور فٹ بال شرٹس
ترمیماسلامی لباس اور فٹ بال
ترمیمبدسلوکی
ترمیمفلموں میں
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Rob Cowling (5 July 2013)۔ "Premier League: How Muslims are changing English football culture"۔ BBC Sport۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولائی 2013
- ↑ Tusdiq Din (23 August 2011)۔ "Fasting and football. How do top-flight Muslims cope?"۔ The Independent۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولائی 2013
- ↑ Saj Chowdhury and Ben Smith (12 June 2013)۔ "Newcastle's Papiss Cisse plans club talks over new shirt sponsor"۔ BBC Sport۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولائی 2013
- ↑ Paul Gittings (8 February 2013)۔ "Israeli football club torched after signing Muslim players"۔ CNN۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولائی 2013
- ↑ "جون میں ایران: فٹبال کا جوش و خروش اور سیاست"۔ www.payvand.com۔ 5 June 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2013
- ↑ "گرلز ایف سی"۔ الجزیرہ۔ 27 June 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2013
- ↑ آمز، کیتھ (26 August 2010)۔ "ایرانی فٹبالر کو روزہ توڑنے پر گھر بھیج دیا گیا"۔ بی بی سی نیوز مشرق وسطی۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولائی 2013