ایمن بن خریم، ایک صحابی تھے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان کا پورا نام ايمن بن خريم بن فاتك بن الاخرم بن شداد بن عمرو بن الفاتك بن القليب بن عمرو بن اسد بن خزيمہ الاسدی ان کی والدہ کا نام الصماء بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصين بن مالك الاسديہ تھیں۔[1]

حضرت ایمن خریم ؓ
معلومات شخصیت

نام و نسب ترمیم

اسلام ترمیم

ایمن کے والد حضرت خریم ؓ بدری صحابی تھے،لیکن ایمن فتح مکہ کے زمانہ میں اسلام لائے اس وقت سبزہ آغاز تھا۔ [2] ایمن عہد رسالت میں کم سن تھے اوراس کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہے،عبد الملک کے زمانہ تک ان کا پتہ چلتا ہے، اس کے دربار میں آمد و رفت رہتی تھی، اس طویل زمانہ میں بڑے بڑے انقلابات ہوئے ،مسلمانوں کے خون کی ندیان بہہ گئیں ،لیکن ایمن کے ہاتھوں سے کسی مسلمان کے خون کا ایک قطرہ نہیں گرا، وہ اس قسم کے موقعوں پر برابر مسلمانوں کو ملامت کرتے رہے، حضرت عثمانؓ کی شہادت پر اس شعر میں اپنی بیزاری کا اظہار کیا۔ [3] إن الذين تولوا قتله سفهاً لقوا أثاما وخسرانا وما ربحوا جو لوگ نادانی کی وجہ سے عثمان کے قتل کے مرتکب ہوئے انھوں نے گناہ اور خسران کے سوا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا مروان سے ذاتی مراسم تھے،مگر اس کی خواہش کے باجود ایمن نے اس کے زمانہ کی لڑائیوں میں کوئی حصہ نہ لیا، ضحاک بن قیس سے جنگ کے زمانہ میں مروان نے کہلا بھیجا کہ ہماری خواہش ہے کہ تم بھی ہمارے ساتھ شریک جنگ ہو، انھوں نے جواب دیا کہ میرے باپ اورچچا بدری صحابی تھے، انھوں نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ میں کسی ایسے شخص سے جولا الہ الا اللہ کہتا ہو نہ لڑوں، اگر تم آتشِ دوزخ سے برأت کی سند لادو تو البتہ میں تمھارے ساتھ جنگ میں شریک ہوجاؤں گا، یہ جواب سن کر مروان نے ان کو برا بھلا کہا اس کے جواب میں ایمن نے یہ اشعار پڑھے: ولست مقاتلاً رجلاً يصلي على سلطان آخر من قريش کسی قریشی کے دبدبہ وحکومت کے لیے کسی نمازی مسلمان سے جنگ کرنے والا نہیں ہوں۔ له سلطانه وعلي إثمي معاذ الله من سفه وطيش اسے قوت ،دبدبہ وحکومت حاصل ہوگی اورمجھے گناہ ملے گا، ایسی بے عقلی اورطیش سے خدا کی پناہ ہے۔ أأقتل مسلماً في غير جرم؟ فلست بنافعي ما عشت عيشي کیا میں کسی مسلمان کو بے خطا قتل کروں ،اگر ایسا کروں تو میری زندگی مجھے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔ مسلمانوں میں با ہم جو جنگیں ہوئیں، ان سے الگ تھلگ رہے۔ خلفاء بنوامیہ سے ان کے گہرے اور دوستانہ تعلقات تھے۔ خاص کر مروان سے بہت گہرے مراسم تھے اور وہ مروان کے دربار میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے۔ اسی راہ و رسم کی بنا پر لوگ انھیں خلیل الخلفاء کہتے تھے۔ شاعر تھے لیکن صرف رزمیہ اشعار کہتے تھے۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند احادیث روایت کی ہیں۔

عام حالات ترمیم

اموی خلفاء کے ساتھ ان کے بڑے مراسم تھے اوران کے دربار میں بہت کثرت سے آیا جایا کرتے تھے، اس رسم وراہ کی وجہ سے خلیل الخلفا کہلاتے تھے،شاعر بھی تھے مگر وہی شاعری جس کا نمونہ اوپر نقل ہوا،دو حدیثیں مروی ہیں۔

منابع ترمیم

کتاب:مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا،مصنف:مرحوم سید قاسم محمود،ص-275

حوالہ جات ترمیم

  1. اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ مؤلف: أبو الحسن عز الدين ابن الأثير
  2. (اصابہ،جلد1،صفحہ:94)
  3. (اصابہ:1/94)