ایکھارت ٹولی
ایکھارت ٹولی یا ایکارٹ ٹول (جرمن : Eckhart Tolle؛ پیدائشی نام : الرچ ٹولی Ulrich Tolle؛ 16 فروری 1948 ء تا حال ) کینیڈا میں رہنے والے جرمن نژاد ایک روحانی اسکال رہیں۔ وہ اپنی بیسٹ سیلر کتب ’’سنّاٹا بولتا ہے ‘‘ (Stillness Speaks)، ’’اب کی طاقت‘‘ (The Power of Now) اور ’’ایک نئی زمین ‘‘ (A New Earth) کی وجہ سے مشہور ہیں۔
ایکھارت ٹولی | |
---|---|
photograph by Kyle Hoobin | |
پیدائش | الرچ لیونارڈ ٹولی فروری 16, 1948 لونین, جرمنی |
پیشہ | Writer, عوامی تقریر |
زبان | English, German, Spanish |
اصناف | Spirituality, نفسیات, metaphysics |
نمایاں کام | The Power of Now (1997) A New Earth (2005) |
ویب سائٹ | |
www |
2008ء میں نیویارک ٹائمز نے انھیں ’’ امریکی قوم کا سب سے زیادہ مقبول روحانی مصنف‘‘ قرار دیا ہے۔ 2011ء کے واٹکنز فہرست برائے 100 باثر روحانی شخصیات میں آپ کو پہلے نمبر پر رکھا گیا۔
ابتدائی حالاتِ زندگی
ترمیمایکارٹ ٹول 16 فروری 1948ء کو ڈارٹمنڈ، جرمنی کے شمالی شہر لونن میں پیدا ہوا۔ ایکارٹ ٹول کی ابتدائی زندگی نہایت کٹھن مراحل سے گذری، ان کے والدین کے جھگڑوں اور طلاق کے بعد اسے ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ اس دور میں جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی لیکن سرد جنگ جاری تھی۔ ہاسٹل میں ایکارٹ جس بلڈنگ کے قریب کھیلتا تھا وہ ایک بم دھماکے میں تباہ کردی گئی جس کا اثر ایکارٹ کے ذہن پر بۃری طرح پڑا اور وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا۔ زندگی کے ابتدائی 29 سال اس نے اسی ڈپریشن میں گزارے۔ 13 سال کی عمر میں وہ وہ اپنے والد کے پاس اسپین چلا گیا۔ ایکارٹ کے والد اسے ہائی اسکول میں پڑھانا نہیں چاہتے تھے لہٰذا اسے گھر پر ہی کتابیں لاکر پڑھنا پڑا۔ اس دوران اس نے باطنی علوم پر لکھنے والے مشہور جرمن مصنف جوزف انتون شنیڈرفرانکن کی تمام کتابیں پڑھ ڈالی۔ 19 سال کی عمر میں ایکارٹ انگلینڈ روانہ ہوا اور لندن میں زبانی علوم کے اسکول (لندن اسکول فار لینگویج اسٹڈیز ) سے جرمن اور فرانسیسی میں مہارت حاصل کی۔ اس دوران ڈپریشن اور خوف پر مسلط رہا اور وہ ان کے جوابات بھی کھوجنے میں لگا رہا۔ عمر کی بیسویں دہائی میں ایکارٹ نے فلسفہ، ادب اور نفسیات کے متعلق پڑھنا شروع کیا اور لندن یونیورسٹی سے ان علوم میں گریجوئشن کیا، ایکارٹ کیمرج یونیورسٹی کی طرف سے اسکالرشپ ملی، جہاں وہ وہ 1977ء میں داخل ہوا۔
باطنی تبدیلی
ترمیم29 سال کی عمر میں 1977 ء کی ایک رات، وہ شدید ناقابل برداشت ڈپریشن کا شکار ہوا اور خودکشی رجحانات اس میں ابھرنے لگے۔ اس رات ڈپریشن کی شدت میں اس کے منہ سے نکلا کہ ’’اب میں خود کو برداشت نہیں کر سکتا ....’’ اس کے ساتھ ہی اچانک اس کے ذہن میں ایک سوال اُٹھا جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا کہ، اگر میں ’’خود‘‘ کو برداشت نہیں کر سکتا؟ آیا کیا میں (I)، خود(Self) سے الگ ہوں .... ‘‘ کیا میں اور خود میرے دو رخ ہیں۔ اس کے بعد اس نے ’’میں ‘‘ (I) اور’’خود‘‘ (Self) کے فرق پر غور کرنا شروع کیا۔ کہ میں (I)کون ہوں اور خود (Self) کون ہے، رفتہ رفتہ اس کی اپنے آپ میں اور اپنی خودی یا انانیت میں فرق تلاش کو پالیا اس کے ساتھ ہے اس نے خود کو ایک خالی زون پایا جہاں دور دور تک کچھ نہیں تھا، ماضی کے ناخوشگوار واقعات اور مستقبل کے خوفناک اندیشے اور تمام مسائل اس وقت پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے اور ساتھ ہی خود (Self) بھی غائب ہو چکا تھا۔ صبح وہ اٹھا تو سب کچھ پرسکون تھا، یہ اس کے لیے عجیب تجربہ تھا۔ اس چھوٹے سے واقعے نے ایکھارٹ کی زندگی میں اور خود اس کے اپنے اندر ایک حوصلہ افزاء تبدیلی پیدا کی ایک اس کے بعد اس نے اپنا نام الرچ سے ایکھارٹ رکھ لیا۔
کیرئیر بطور روحانی اسکالر
ترمیمشروع میں تقریبا دو سال تو لندن کے رسل پارک کی ایک بینچ پر جاکر بیٹھتا اور غور و فکر کرتا رہا، اس کے بعد، کیمبرج یونیورسٹی میں وہ اپنے دوستوں اور سابق طالب علموں سے ان کے خیالات کے بارے میں پوچھتا رہتا اور انھیں اپنے روحانی اور باطنی تربیت کے لیے مشورے دیتا رہتا۔ وہ کالج میں روحانی استاد اور مشیر کے بطور پر مشہور ہو گیا، اس کا کام پانچ سال کے لیے جاری رہا۔ اس کے بعد کئی سال روحانی علوم کی تلاش میں وی یورپ کے مختلف علاقوں کی سیاحت کرتا رہا۔... 1995 میں وہ شمالی اور مغربی امریکا کے کئی دوروں کے بعد، اس کے ملاقات کم انگ سے ہوئی جو بعد میں اس کی بیوی بنی۔ شادی کے بعد ایکھارٹ مستقلاً امریکا منتقل ہو گیا اور کینیڈا کے شہر وینکوور میں رہنے لگا۔ 1997 ء میں بطور روحانی ادیب اس کی پہلے کتاب ’’اب کی طاقت ‘‘ (The Power of Now) محض تین ہزار کی تعداد میں شایع ہوئی، ابتدا میں ایکھارٹ بذات خود یہ کتاب وینکوور کے چھوٹے بڑے بکسٹال تک پہنچاتا رہا، بعد میں کچھ دوستوں نے اس کی کتاب کو دوسرے شہروں میں متعارف کرایا، جو اتنی مقبول ہوئی کہ 1999ء میں نیو ورلڈ لائبریری نے اسے دوبارہ بڑی تعداد میں شائع کیا، 2000ء میں یہ کتاب نیویارک بیسٹ سیلر میں پہنچ گئی اور 2008ء تک تقریباً 33 زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کا موضوع تھا کہ سوچ کو مثبت رکھنا ہی خوش حال زندگی کی کلید ہے، ہم میں سے زیادہ تر لوگ ماضی کی ناکامیوں اور مستقبل کے خدشات کو ذہن میں لیے پھرتے ہیں اور منفی خیالات سے گھِرے رہتے ہیں اور اسی میں ہماری زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی کا حل دی اب کی طاقت (پاور آف ناؤ) میں بتایا گیا ہے کہ ’’موجود لمحات میں جینا‘‘ یہی عام دنیاوی زندگی میں خوش حالی کا منتر ہے اور اسی سے شخص اس اعلی روحانی سطح بھی چھو سکتا ہے۔ بس ماضی اور مستقبل کی منفی سوچ کو ختم کرنا ضروری ہے، یہ لوگوں کے مسائل کی جڑ ہے۔ صرف موجودہ حال ہی حقیقت ہے، جسے آپ چھو سکتے ہیں محسوس کرسکتے ہیں اور مستقبل اور ماضی محض تصور ہے اسے بس سوچا ہی جا سکتا ہے، اس کتاب میں ایکھارٹ کی زندگی کو کھلا چھوڑ دینے کی بات کی ہے، ماضی و مستقبل پر کنٹرول صرف ہمارا وہم ہے۔ زیادہ سے زیادہ ’’فطرت‘‘ کے قریب رہنا ہی زندگی ہے۔ اس کتاب میں ’’ملٹی ٹاسكنگ‘‘ اور دیگر مسائل سے بھی بچنے کا مشورہ بھی دیے گئے ہیں۔ ایکھارٹ کی دوسری کتاب ’’سنّاٹا بولتا ہے ‘‘ (Stillness Speaks) سال 2003ء میں اور تیسری کتاب ’’ایک نئی زمین ‘‘ (A New Earth) سال 2005ء میں شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی نیویارک بیسٹ سیلر میں پہلے نمبر پر پہنچ گئی۔
نظریات
ترمیمان کا کہنا ہے کہ وہ مختلف روحانی تعلیمات سے متاثر ہیں لیکن کسی بھی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ مذاہب میں سے کسی کو اپنی شناخت نہیں بنانا چاہتے مگر وہ سب کو تسلیم کرتے ہیں، وہ اپنے لیکچرز میں زین بدھ مت، تصوف، ہندو مت، اسلام، یہودییت مسیحیت کے حوالے استعمال کرتے رہتے ہیں۔