ابن عساکر نے حسین ابن علی سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اهل بيتی ۔۔۔ گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔ (کنز العمال، حدیث : 34322) محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں :کنا مع الحسين بنهر کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق اﷲ ورسوله! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أهل بيتي و کان شمر أبرصہم یعنی امام حسین کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا۔(کنز العمال فضائل اهل بي، قتل حسين، 13) چنانچہ حسین ابن علی نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر کو تن سے جدا کر دیا۔
سلیمان ابن احمد ابن الطبرانی نے زہری سے روایت کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔لما قتل الحسين بن علی لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحته دم عبيط. یعنی جب حسین بن علی کو شہید کردیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا۔(معجم الکبير، 3، حدیث : 28347)۔ امام طبرانی نے امام زہری سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا! مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دمشہادت یعنی حسین ابن علی کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا (معجم الکبير، حدیث : 2835 اورمجمع الزوائد، 9 : 194)