برسر عہدہ خواتین (انگریزی: Women in positions of power) وہ خواتین ہیں جن کے پاس کوئی عہدہ، اثر انگیزی یا ذمے داری ہے۔ تاریخی اعتبار سے اقتدار بین الاصناف غیر مساویانہ طور پر تقسیم ہوا ہے۔ بااختیار مقامات عمومًا خواتین سے زیادہ مردوں کو حاصل رہے ہیں۔[1] جیسے جییسے عالمی سطح پر جنسی برابری کا تصور زور پکڑ ریا ہے، عورتیں زیادہ سے زیادہ طاقت ور مقامات پر فائز ہو رہی ہیں، جس کا سبب پالیسی اور سماجی انصاف ہے۔[2]

عمومی عالمی تجزیہ ترمیم

پیو ریسرچ سینٹر کے 2017ء میں کیے گئے تجزیے کے مطابق، دنیا بھر میں 15 خواتین بر سرِ اقتدار ہیں جن میں سے آٹھ اپنے ملک کی پہلی خاتون رہنما ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین رہنما اقوام متحدہ کی 193 رکن ریاستوں میں سے 10 فیصد سے کم کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ یہ عدد اگر چیکہ بہت زیادہ خوش نما نہیں ہے، مگر یہ صورت حال کچھ سال پہلے سے بہتر ہے جب کسی عورت کا سربراہ ملک ہونا اور بھی شاذ و نادر تھا۔[3] سربراہ ملک سے قطع نظر زمینی سطح پر کام کی جگہ عورتیں دنیا بھر میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے لگی ہیں اور اپنی محنت اور لگن کے سبب وہ کئی ذمے داری کے عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں، جیسے کہ صدر شعبہ یا کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر۔ یہ تعداد بھی مردوں کے بالمقابل کافی کم ہے۔

جدید دور میں حکومتیں بھی سرکاری محکموں اور فوج جیسے عہدوں میں عورتوں کو جگہ دینے لگی ہیں۔ اس کی ایک مثال 2017ء میں سوریہ کی فوج میں پہلی بار بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ایک خاتون کا تقرر ہے۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو فوج کے اس اعلیٰ عہدے تک پہنچی ہیں۔ نبل مدحت بدر نامی یہ فوجی افسر شام کے شہر تارتوس سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس سے قبل شامی فوج میں خواتین کی شمولیت اور مختلف عہدوں پر ان کی ترقی کوئی نئی بات نہیں تاہم اس عہدے تک پہنچنے والی مدحت پہلی خاتون ہیں۔[4] ایسے عہدے عرب ملکوں اور کئی غیر عرب ملکوں میں زیادہ تر مردوں ہی کو دیے جاتے رہے ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Hartsock, N. (1990). Foucault on power: a theory for women?. Feminism/postmodernism, 162.
  2. Cockburn, C. (1991). In the way of women: Men's resistance to sex equality in organizations (No. 18). Cornell University Press.
  3. 100 ویمن: کیا خواتین رہنما عورتوں کی زندگی بہتر بنا سکی ہیں؟
  4. شامی فوج میں پہلی خاتون بریگیڈیئر جنرل کا تقرر