بروریہ

دوسری صدی عیسوی کی یہودی عالمہ

بروریہ (عبرانی: ברוריה) دوسری صدی عیسوی کی ایک یہودی عالمہ تھی، اس کا حوالہ تلمود میں ایک دانا بزرگ خاتون کے طور پر آیا ہے۔ اس کا شوہر تانا ربی میر تھا اور اس کا باپ حنان بن ترادیون تھا جو دس یہودی شہداء میں سے ایک تھا۔ بروریہ ہلاخاہ اور آگادا کی عالمہ تھی۔ اس کے والدین کو تورات کی تعلیم دینے پر رومیوں کی طرف سے موت کی سزا دی گئی تھی، لیکن وہ اپنی علمی وراثت پر عمل پیرا رہی۔[1]

بروریہ
 

معلومات شخصیت
پیدائش دوسری صدی عیسوی
اسرائیل  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات دوسری صدی عیسوی
سوریہ فلسطین  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب یہودیت
شریک حیات ربی میر  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد
والد حنان بن ترادیون  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندان ترمیم

اس کے والد کا نام حنان بن ترادیون تھا جب کہ اس کی ماں کا نام محفوظ نہیں، اس کا باپ دوسری صدی عیسوی کا بہت معروف فلسفی ربی بھا۔

تالمود کے مطابق جب بروریہ کے باپ کو تورات کے سکرول میں لپیٹ کر آک لگائی کئی تو اس وقت وہ اپنے والد کے ساتھ انتہائی صبر اور استقامت کے ساتھ کھڑی رہی۔ اس کے والد کو رومیوں نے جلا کر مارا تھا۔ رومی سپائی گیلے اونی کمبل سے اس آگ کو ٹھنڈا کرتے رہے تا کہ وہ زیادہ دیر زندہ رہ کر آک کا عذاب جھیلتا رہے۔ حنان ربی کا کردار یہودیتم یں ایک ہیرو کا ہے۔ جس نے سزا کے خوف سے رومیوں سے معافی نہ مانگی۔ اس کی ماں کے ساتھ رومیون نے کیا سلوک کیا، اس بارے کچھ علم نہیں، البتہ اس کی بہن کو جسم فروشی کے اڈے میں بھیج کر، ایک طوائف بنا دیا گیا۔ بروریہ نے ربی میر سے شادی کی تھی۔ برویہ کے بیٹے کی موت سبت کو ہوئی۔[1]

فلسفہ ترمیم

بروریہ کا کہنا تھا کہ اگر عقل اور بصیرت ایک جگہ اکھٹے ہو جائیں تو تبانسان پر حقیقت کے انکشافات ہوۃے ہیں۔ بروریہ ہمیشہ اپنی عقل و فہم کا اظہار تورات کے الفاظ سے کرتی تھی۔ یہودیوں کی کتاب مدراش میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ بروریہ نے دیکھا کہ اس کا خاوند اپنے بدمعاش پڑوسی کی تباہی کی دعا کر رہا ہے تو اس نے اپنے شوہر ربی میر کو کہا، ایسا مت کرو بل کہ ہمیں چائیے کہ ہم دعا کریں کہ کہنگاروں کو خدا تباہ نہ کرے بل کہ ان کو ہدایت دے کہ وہ اچھے انسان بنیں۔ بروریہ ان مردوں کا تمسخر اڑایا کرتی ج وکہتے کہ عورنتیں کم عقل ہوتی ہیں۔ جب سبت کے دن اس کا بیٹا مرا تو اس نے اپنے شوہر سے مکالمہ کیا کہ اگر کوئی جائداد ادھار دے اور پھر وہ اسے واپس مانگے تو کیا وہ اسے واپس کر دی جائے؟ شوہر نے کہا ہاں! تب اس نے اپنے بیٹے کے مرنے کی خبر دی کہ خدا نے دیا تھا اب واپس لے لیا، اس لیے غم زدہ نہیں ہونا چائیے۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ملک اشفاق، قدیم دور کی عظیم فلسفی خواتین، صفحہ 86-88، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ستمبر 2015ء