"بندآنکھوں سے پرے ‘‘ محمد حمید شاہد کے افسانوں کامجموعہ ہے جو 1994 میں لاہور سے شائع ہوا اور اردو دنیا میں افسانہ نگار کی قبولیت کا جواز بن گیا[1]- اس مجموعہ میں چودہ اردو افسانے شامل ہیں - "برف کا گھونسلا"، "بند آنکھوں سے پرے "، "کفن کہانی"، "ماسٹر پیس"، اس کتاب کی معروف کہانیاں ہیں -

رنگ رس والی کہانیاں، تہذیبی زندگی کی تاریخ

ترمیم

ممتاز مفتی اس کتاب بارے لکھتا ہے[2]

محمد حمید شاہد کے بات کہنے کا انداز ایسا ہے کہ وہ پہنچ جاتی پے - اس کے بیان میں سادگی اور خلوص ہے - خیالات میں ندرت ہے - اس کا نقطہ نظر مثبت پے -اور اس کی سچائیوں میں رنگ ہے رس ہے -

جبکہ احمد ندیم قاسمی رقمطراز ہے[3]

بندآنکھوں سے پرے ایک ایسے تخلیق کار کے افسانے ہیں جو زندگی کی شاہراہوں سے زیادہ اس کی پگڈنیوں سے گذرا ہے اور اس طرح اس کے مشاہدے میں زندگی کا بھرپور پن پوری بلاغت کے ساتھ در آیا ہے - محمد حمید شاہد نے سچی اور کھری زندگی کا حق ادا کر دیا ہے - وہ کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر حاوی ہے -ان افسانوں کا ایک ایک کردار ایک ایک لاکھ انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے - اور یوں بندآنکھوں سے پرے افسانوں کا مجموعہ تو ہے ہی مگر محمد حمید شاہد نے اس کے ساتھ ہی اسے لمحہ رواں کی معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی کی تاریخ کا درجہ بھی دے دیا ہے -

اس کتاب کے افسانے

ترمیم
  • کھانی سچ کہتی ہے
  • برف کا گھونسلا
  • اللہ خیر کرے
  • جنریشن گیپ
  • کہانی اور کرچیاں
  • سجدہ سہو
  • ماسٹر پیس
  • بند آنکھوں سے پرے
  • اپنا سکہ
  • وراثت میں ملی ناکردہ نیکی
  • مراجعت کا عذاب
  • آئینے سے جھانکتی لکیریں
  • آخری صفحہ کی تحریر
  • کفن کہانی

حوالہ جات

ترمیم

  1. -اردو افسانہ، ایک صدی کا قصہ از ڈاکٹر انوار احمدمقتدرہ قومی زبانپاکستان 2007
  2. رنگ رس والی کہانیاں از ممتاز مفتی، پس سرورق بند آنکھوں سے پرے ،الحمد پبلی کیشنز،لاہور1994
  3. تہذیبی زندگی کی تاریخ،از احمد ندیم قاسمی ،فلیپ بند آنکھوں سے پرے ،الحمد پبلی کیشنز،لاہور1994