بو
بو کسی شے کے وجود سے متعلق ایک حس ہے جسے اکثر انسان اپنی ناک کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔ یہ بو پر لطف بھی ہو سکتی ہے، جسے خوشبو کہا جاتا ہے، جیسے کہ عطر یا پرفیوم کی بو۔ یہ بد بو کی صورت میں بھی ممکن ہے، جیسے کہ کبھی کیچڑ، باسی کھانے وغیرہ سے آتی ہے۔ بو کا تعلق ناک کے سونگھنے سے ہے۔ اسی صلاحیت سے کئی بار لوگ اپنے گھر کے یا پڑوسیوں کے بکوان کو سونگھ سکتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے انسان کچھ جلنے یا آگ لگنے کا دور سے احساس کرتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے زخمی ہونے اور خون کے بہ جانے کا احساس اس خون کی بو سے کر سکتا ہے۔ گھریلو خواتین روز آنہ پکوان کے دوران ناک کے ذریعے غذا کے خوشنما ہونے یا بد مزہ ہونے کا احساس کرتی ہیں۔ وہ کھانے کے داغ لگنے کی بو بھی سونگھ کر سمجھ جاتی ہیں، بلکہ اس بو کی مدد سے معمولی داغ کو بھر پور بننے سے روک سکتی ہیں۔
سونگھنے کی صلاحیت اور طویل العمری
ترمیممئی 2019ء میں ایک تحقیق کے مطابق سونگھنے کی صلاحیت اور اس میں درجۂ کمال کا ہونا کسی شخص کی طویل العمری کے راز کی طرف اشارہ ہو سکتی ہے۔[1] اسی طرح سے جہاں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انسان 10 ہزار نہیں بلکہ ایک لاکھ کروڑ کی خوشبوؤں یا بدبوؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہیں ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی بھی انسان کی سونگھنے کی حس کمزور ہے تو وہ ان انسانوں کے مقابلے کم زندگی پاتا ہے جس کی سونگھنے کی حس طاقتور ہوتی ہے۔[2]
سونگھنے کا جسامت پر اثر
ترمیم2010ء کی ایک سائنسی تحقیق کے مطابق موٹاپے کا شکار لوگوں میں کھانے کی خوشبو سونگھنے کی صلاحیت دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔یہ رپورٹ کیمیکل سینسیز نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ برطانیہ کی پورٹ اسمتھ یونیورسٹی میں محققین کا کہنا ہے کہ ان کے بنیادی مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو پتلا رہنے کے لیے مشقت کیوں کرنی پڑتی ہے۔ پتہ چلا کہ فربہ لوگوں میں کھانے کی خوشبو سونگھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے یعنی ان میں سونگھنے کی حس زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ لوگ جب بھوکے ہوں، اس کے مقابلے میں کھانا کھانے کے بعد کھانے کی خوشبو کو بہتر طور پر سونگھ پاتے ہیں۔سائنسدانوں کو فی الحال اس کی وجہ معلوم نہیں ہے لیکن ڈاکٹر سٹیفورڈ کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ایک ایسا قدرتی نظام ہو سکتا ہے جس کا مقصد انسان کو ضرورت سے زیادہ کھانے سے روکنا ہو۔[3]