بودھ مت میں خالق کا تصور

بودھ مت میں خالق کا تصور (انگریزی: Creator in Buddhism) نہیں ہے کیوں کہ اس مذہب میں ایک تخلیق کار خدا کے تصور کو مسترد کیا گیا ہے لیکن اسی مذہب میں اس کے بر عکس روشن خیال انسانوں کو دیوتاؤں کی طرح عزت دی گئی ہے۔[1] بُدھ مَت کو میانمار، ، تھائی لینڈ، تبت اور مشرق بعید کے ممالک نے اپنا لیا ہے۔ بھارت میں بدھ مذہب کو ماننے والے کم ہیں، لیکن جن ممالک میں بودھ دھرم گیا، اُن ممالک کے مقامی اور آبائی مذہبی عقائد کو بھی بودھ دھرم نے اپنے عقیدے میں شامل کر لیا۔ خیال رہے کہ بُدھ مذہب میں خداکا تصّور نہیں ہے۔ ماہرین نے عام مشاہدے سے یہ تاثر پیش کیا کہ بدھ مت ملحدانہ اصل رکھنے کے باوجود ہندو دھرم کی طرح ہزاروں سال کے میل جول نے مقامی آبادی (دڑآوڑ، بھیل اور کَول) کے دیوتاؤں کو ہندوؤں نے بھی اپنا لیا۔ یہی ہندو دھرم جب ہندوستان سے باہر الجزائر بالی، ماریشس اور سُوری نام (ڈچ گیانا) گیا تو ہندو دھرم نے اِن سرزمینوں کے دیوی دیوتاؤں کو بھی اپنا لیا گیا تھا۔ [2]

بشیر احمد لودھی لکھتے ہیں کہ جنگِ عظیم دوم کے شعلوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مجھے بھی فوجی ملازمت کے سلسلہ میں مشرقِ بعید (برما وغیرہ) میں گھومنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں عوامُ النّاس کا مذہب بودھ مت ہے۔ ان کے گھروں اور عبادت خانوں میں جانے کا اکثر اتفاق ہوا۔ گوتم بدھ کے بت دیکھے۔ ان کا عقیدہ بھی ہندو سے ملتا جلتا ہے، صرف ناموں کا فرق ہے۔[3]

ندومت کے مقابلے بودھ مت میں تصوف کارجحان زیادہ رہا ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بدھ مت کی شروعات ہی برہمن مت کے رد عمل کے طور پر ہوئی تھی۔ خود مہاتما بدھ نے اسی کا سہارا لیا اور نروان حاصل کرنے کے لیے جنگلات و صحراوں کی خاک چھانی۔ بدھ مت میں نروان کو سب سے اعلی مقام حاصل ہے۔ معرفت کی آخری منزل ان کے یہاں نروان ہی ہے۔

بُدھ نے اپنے تمام متبعین کو حکم دیا کہ وہ نروان حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے انھوں نے مندرجہ ذیل اصولوں کا ذکر کیا جن کوبدھ مت کی ریڈھ کی ہڈی کہا جا سکتا ہے:

1۔ لوگ آپس میں محبت سے رہیں۔ کسی پر ظلم نہ کریں، یہاں تک کہ جانوروں کوبھی نہ ستائیں۔

2۔ ہر حال میں سچ کا دامن تھامے رہیں اور جھوٹ سے پرہیز کریں۔

3۔ ماں باپ اور استاد کا حق پہچانیں اور ان کی عزت وخدمت کریں۔

4۔ پیدائش کی بنا پر کسی کو حقیر و رذیل نہ خیال کریں، کیونکہ یہ فرق صرف اعمال پر موقوف ہے۔

5۔ غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کریں۔

6۔ افراط و تفریط سے بچیں اور ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔

7۔ حلال ذریعے سے اپنی روزی کمائیں۔

8۔ تپسیا اور برہمنوں کی من گھڑت رسموں کے ذریعے نجات حاصل کرنے کا خیال ترک کریں۔ خلوص نیت سے کام کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کریں۔[4]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم