بڑھئی کے پیشے میں خواتین
نجاری یا بڑھئی کے پیشے میں خواتین کی حصے داری دنیا بھر میں بہت کم ہے۔ کچھ ملکوں میں یہ عملًا مفقود ہے۔ تاہم ترقی پزیر دنیا میں اس حصے داری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2011ء میں ریاستہائے متحدہ امریکا میں 1.4 فی صد بڑھئی خواتین پائی گئی تھیں جو وہاں کی مزدوری شماریات کے بیورو (یو ایس لیبر اسٹاٹسٹکس بیورو) کے مطابق گذشتہ 35 سال سے وہی اوسط رہی ہے۔ تاہم اسی بیورو نے اس میدان میں خواتین کے حصے کے بڑھنے اور کم از کم دو فی صد ہونے کی امید جتائی، کیوں کہ 2021ء تک اس میدان میں 200,000 نجاری کی نئی ملازمتوں کے امکانات موجود ہیں۔[1]
بر صغیر میں بڑھئی خواتین
ترمیمہنزہ کے التت گاؤں میں خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے اپنی نوعیت کا ایک منفرد منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ ’شقم‘ نامی اس پراجیکٹ کے تحت خواتین کو فرنیچر، کھلونے اور دوسری مصنوعات بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ شقم پراجیکٹ 2003ء میں آغا خان کلچرل سروس پاکستان کی سرپرستی میں شروع ہوا تھا۔ اس کے تحت غریب خواتین کو فنی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرے کی فعال ارکان بن سکیں۔ 2007ء میں ناروے کے سفارت خانے نے بھی اس پراجیکٹ میں دلچسپی لی اور اس کے لیے مالی تعاون پر آمادگی ظاہر کی۔ قم کی ہنرمند خواتین کے بنائے ہوئے لکڑی کے چمچے، جو فنشنگ کے مراحل سے گزرنے کے بعد بازار میں فروخت کے لیے پیش کر دیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے سے سے وابستہ خواتین مکمل حفاظتی انتظامات کے تحت تربیت حاصل کرتی ہیں، جن میں شور سے بچنے کے لیے کانوں پر خصوصی ہیڈفون لگانا شامل ہے۔[2]
اسی طرح سے بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں خواتین بڑھئی کے پیشے میں قدم رکھ رہی ہیں۔
کام کی عمومی نوعیت
ترمیمبڑھئی خواتین ایک عام تعمیراتی کام کی طرح خدمات نہیں انجام دیتی ہیں۔ وہ عمومًا کسی ادارے سے جڑتی ہیں یا پھر اپنے طور پر منصوبے انجام دیتی ہیں۔ فرنیچر سازی وہ کرسیاں، میز، لکڑی کی الماریاں، دروازے، کھڑکیاں۔ غرض دیگر سبھی لکڑی کا سامان تیار کرتی ہیں۔ تاہم یہ بڑھئی خواتین خود درخت نہیں کاٹتی ہیں بلکہ دست یاب لکڑی کے چکلوں کسی شے اور ہیئت میں بدل کرتی ہیں۔[3]