بکہ

قرآن مجید میں جگہ کا ذکر

بکہ (عربی: بكة) مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ کا پرانا نام ہے۔[1]

مکہ میں کعبہ کا ایک منظر۔

بکہ قرآن کی سورت نمبر 3 آل عمران کی آیت 96 میں مذکور ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. باربرا این کیفر۔ انسائیکلو پیڈیا آف آرکیالوجی۔ سپرنگر۔ صفحہ: 342۔ ISBN 978-0-306-46158-3۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2015 

بیرونی روابط

ترمیم

.{{#مکہ یا #بکہ

تھوڑی سی وضاحت کر رہا ہوں لفظ بکہ کو بنیاد بنا کر لوگوں کے ذہن میں تشویش پیدا کیا جا رہا ہے کہ قرآن مکہ میں نہیں بکہ میں نازل ہوا ہے یا تاریخی شہر مکہ نہیں بکہ ہے (بک ) قدیمی سامی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے مقدس مقام جیسے لبنان میں مقدس مقام بعلبک بعل سید اور آقا کو کہتے ہیں جیسے قرآن میں سورہ ھود میں ذکر ہے قَالَتْ يَا وَيْلَتٰٓى ءَاَلِـدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّهٰذَا بَعْلِىْ شَيْخًا ۖ اِنَّ هٰذَا لَشَىْءٌ عَجِيْبٌ (72)

وہ بولی اے افسوس کیا میں بوڑھی ہو کر جنوں گی یعنی بچہ پیدا کرونگی اور یہ میرا (بعلي )خاوند بھی بوڑھا ہے، یہ تو ایک عجیب بات ہے۔ ادھر شوہر کو احترام کی وجہ سے بعل کہا گیا ہے تو بعل یعنی سید / آقا اور بک سے مراد مقدس مقام سے بعلبک بن جاتا ہے اس طرح قرآن میں چھوتے پارے میں آیت ہے اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّـذِىْ بِبَكَّـةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِّلْعَالَمِيْنَ (96)

بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے۔ اس آیت میں مکہ کو بطور تقدیس بکہ کہا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو برکت والی مقدس مقام پر اتارا ہے دوسری وضاحت یہ کہ ہر زبان کچھ حروف اقلاب ہوتے ہیں کچھ مخفی ہوتے ہیں کچھ مدغم بعض چونکہ مخارج میں متقاربین ہوتے ہیں اس وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ادائیگی پر فرق پڑھتا ہے دنیا کے ہر زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں اس طرح عربی زبان میں میم اور ب کو شفوی حروف کہتے ہیں یہ دونوں ہونٹوں سے نکلتے ہیں عربی زبان کے ماہرین اس بات سے خوب واقف ہیں کئی جگہ میم کی جگہ ب لکھا گیا ہے جیسے نابغہ الزیبانی نے اپنی مشہور قصیدہ کلینی یا امیمہ میں ایک شعر لکھا ہے ولا يحسِبُونَ الخيرَ لا شَرّ بعدهُ ولا يحسِبُون الشرّ ضربةَ لازبِ ادھر شاعر نے لازم کی جگہ لازب لکھا ہے معلوم یہ کہ مکہ بکہ میں فقط نطق کا فرق ہے ایک رایہ یہ بھی ہے کہ پورے شہر کو مکہ جبکہ جہاں کعبہ ہے اس مقام کو تقدس کی وجہ سے بکہ کہا گیا ہے

یہ کہنا کہ بکہ کوئی اور شہر ہے اور مکہ کوئی اور یہ سراسر زیادتی اور تاریخی خیانت ہے 

جن لوگوں کو پتہ نہیں کہ صفاتی اور القابی نام کیا ہوتے ہیں وہ نکلے ہیں مکہ جیسے شہر کے تاریخ کو بدلنے اور خلط ملط کرنے واسطے دوسرا وسوسہ جو یہ لوگ پھیلانے کی ناکام سعی کر رہے ہیں کہ قرآن کو کئی بار اکٹھا کیا گیا اور آخر کار تیسرے خلیفہ عثمان کے عہد میں اکٹھا کیا گیا جہاں لفظ بکہ والی اوراق اور آیتوں کو جلایا گیا یہاں تک کہ بعض لوگوں کو جب نیا مصحف پیش کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں تو نقص ہے فلاں فلاں آیت نہیں یہاں یہ سب کچھ لکھتے وقت یہ سوچنا بھول گئے ہیں کہ اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں حفاظ موجود تھے جو سینہ بہ سینہ یاد کیے تھے ان کے سینے سے لفظ بکہ کس نے مٹایا کس نے جلایا انسان کو اتنا جھوٹ گھڑنا چاہیے کہ لوگ اعتبار تو کرے لفاظی کرکے اس کو تاریخ اور تحقیق کا نام دیکر حقائق کو نہیں مٹایا جا سکتا }}