روس اور بھارت کے سفارتی تعلقات (انگریزی: Russia–India relations) 13 اپریل 1947ء کو قائم ہوئے تھے، جب بھارت نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تاریخی طور پر انتہائی مضبوط رہے ہیں، خاص طور پر سرد جنگ کے دوران جب سوویت یونین اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات رہے۔ ان تعلقات کو آج بھی برقرار رکھا گیا ہے اور دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے[1]۔

روس اور بھارت کے سفارتی تعلقات

روس

بھارت
سفارت خانے
روس کا سفارت خانہ، نئی دہلی بھارت کا سفارت خانہ، ماسکو
مندوب
روسی سفیر بھارت میں بھارتی سفیر روس میں

تاریخی پس منظر

ترمیم

بھارت کی آزادی کے بعد، سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ممالک کے درمیان 1950ء کی دہائی میں تعلقات میں بہتری آئی، جس کے نتیجے میں متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں تجارت، دفاع اور ثقافت کے شعبے شامل ہیں۔ 1971ء میں دونوں ممالک نے ایک دوستی اور تعاون کا معاہدہ کیا، جس نے ان کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا[2]۔

سرد جنگ کے دوران تعلقات

ترمیم

سرد جنگ کے دوران بھارت اور سوویت یونین کے تعلقات نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کی بنیاد رکھی۔ سوویت یونین نے بھارت کو دفاعی، اقتصادی، اور تکنیکی مدد فراہم کی، جبکہ بھارت نے عالمی سطح پر سوویت یونین کے موقف کی حمایت کی۔ اس دور کے دوران دونوں ممالک کے درمیان قریبی دفاعی تعاون بھی جاری رہا، جس نے بھارت کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھایا[3]۔

موجودہ دور کے تعلقات

ترمیم

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، بھارت اور روس کے درمیان تعلقات نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ دونوں ممالک نے 2000ء میں ایک اسٹریٹیجک پارٹنرشپ معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت دفاعی، اقتصادی، اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا گیا۔ بھارت اور روس کے درمیان توانائی کے شعبے میں بھی قریبی تعاون رہا ہے، خاص طور پر نیوکلیئر انرجی کے شعبے میں[4]۔

اقتصادی اور ثقافتی تعاون

ترمیم

روس اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران نمایاں بہتری آئی ہے۔ دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں تجارتی معاہدے، سرمایہ کاری کے منصوبے، اور مشترکہ اقتصادی سرگرمیاں شامل ہیں۔ ثقافتی تعلقات میں بھی دونوں ممالک نے مختلف ثقافتی تبادلے، تعلیمی پروگرامز، اور سیاحت کے فروغ کے لیے تعاون کیا ہے[5]۔

موجودہ چیلنجز

ترمیم

روس اور بھارت کے تعلقات میں موجودہ چیلنجز بھی موجود ہیں، خاص طور پر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل۔ تاہم، دونوں ممالک نے سفارتی مذاکرات کے ذریعے ان چیلنجز کا سامنا کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں[6]۔

تقسیم ہند سے قبل

ترمیم

کانگریس تقسیم ہند کے اعلان سے قبل ہی سوویت یونین کے ساتھ فوجی تعلقات کی راہ ہموار کر چکی تھی۔ 1946 میں ہندوستان کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو پنڈت جواہر لال نہرو نے کرشنا مینن کو اپنا ذاتی نمائندہ مقرر کر کے یورپ بھیجا جہاں اس کا مشن آزاد ہندوستان کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اسی دورے کے دوران کرشنا مینن نے سوویت وزیر خارجہ کے ساتھ پیرس میں ملاقات کی جس میں مولوٹوف سے متوقع آزاد ہند کے لیے اناج کی صورت میں امداد کی درخواست کی نیز سوویت فوجی ماہرین کو ہندوستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی (تاکہ بھارت کی دفاعی ضروریات کے لیے مذاکرات کیے جا سکیں)۔ اس سلسلے میں کرشنا مینن نے روسی مندوب سے اپنے دورہ ماسکو کے لیے بھی راہ ہموار کرنا چاہی تھی جس کے جواب میں سوویت وزیر خارجہ مولوٹوف نے وفد کو وہیں لنچ پر بلا لیا اور ماسکو کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے قیام سے آگاہ کر دیا[7]۔

مزید دیکھیے

ترمیم


حوالہ جات

ترمیم
  1. "India-Russia Relations: An Enduring Partnership" (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-06
  2. India and Russia: A History of Diplomatic Relations۔ Cambridge University Press۔ 2015۔ ص 42
  3. "Cold War Allies: India and the Soviet Union"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-06
  4. The New Era of India-Russia Relations۔ Oxford University Press۔ 2020۔ ص 57
  5. "Russia-India Economic Ties: A Comprehensive Overview"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-06[مردہ ربط]
  6. "India-Russia Relations: Challenges and Opportunities"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-09-06[مردہ ربط]
  7. نہرو، اے بائیوگرفی ۔۔۔۔۔ از سروپلی گوپال ۔۔۔۔۔ اشاعت 1975

بیرونی روابط

ترمیم