بھارت میں خواتین کی صحت

بھارت میں خواتین کی صحت (انگریزی: Women's health in India) کا تجزیہ متعدد پیمانوں کے جائزے سے لیا جا سکتا ہے جو جغرافیہ، سماجی و اقتصادی موقف اور ثقافت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔[1] بھارت میں خواتین کی صحت کو خاطر خواہ انداز میں بہتر بنانے کے لیے خوش حالی کے مختلف پیمانوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے جو عالمی صحت کے اوسطوں کے موازنے میں آئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسی ملک میں مردوں سے موازنے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ صحت انسانی خوش حالی اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔[2]

ایک سماجی صحت کی کارکن خاتون ایک ٹیکے کو تیار کرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تصویر بھارت کی اوڈیشا ریاست سے تعلق رکھتی ہے۔


ملک اور سماج میں خواتین کا موقف

ترمیم

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے 2017ء میں بھارت میں خواتین کے موقف پر ایک سروے جاری کیا۔ اس عالمی سروے کے مطابق عورتوں کے حقوق کی خراب صورت حال کے حوالے سے بھارت اوّل نمبر پر ہے جہاں سنہ2012ء میں 23 سالہ لڑکی کے گینگ ریپ اور ہلاکت کے واقعے کے بعد خواتین پر ہونے والے حملوں میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے بلکہ دن بدن اضافہ ہی ہوا ہے۔بھات کو تین وجوہات کی بنا پر خواتین کے حوالے سے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ ایک تو جنسی ہراسانی اور جنسی تشدد کے خطرات جن کا سامنا بھارتی خواتین کو آئے روز کرنا پڑتا ہے، دوم سماجی اور روایتی رسوم و رواج کے سبب اور تیسری وجہ خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کی اسمگلنگ ہے جس کے تحت انھیں جبری شادی، جنسی غلامی اور گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔[3] اس کے علاوہ کئی جگہوں پر خواتین کے امراض کے ماہرین کی کمی، زچگی کی سہولتوں کی عدم موجودگی، خاندانی منصوبہ بندی کا فقدان، ناخواندگی اور دیگر کئی مسائل بھی بھارت میں موجود ہیں۔

نو مولود لڑکیوں کا فقدان / اسقاط حمل

ترمیم

جولائی 2019ء میں بھارت کے شمالی اضلاع میں مجسٹریٹ کی تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ گذشتہ تین مہینوں کے دوران پیدا ہونے والے 132 دیہات کے 216 بچوں میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔تحقیقات کا آغاز جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے اسقاط حمل کے شک پر کیا گیا۔ اتراکھنڈ میں واقع اترکاشی حکام کے مطابق لڑکیوں کی شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسقاط حمل کے ذریعے لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت میں 1994ء سے حاملہ عورتوں کے پیٹ میں لڑکیوں کے اسقاط پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات عام ہیں کیونکہ والدین بیٹے کو کفیل جبکہ بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔[4]

بھارت کی حکومت، مرکزی اور ریاستی سطح لڑکیوں کی پیدائش، ان تعلیم، صحت، وغیرہ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ مختلف اسکیموں اور منصوبوں میں منفی صورت حال کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Chatterjee, A, and VP Paily (2011)۔ "Achieving Millenium Development Goals 4 and 5 in India."۔ BJOG۔ 118: 47–59۔ PMID 21951502۔ doi:10.1111/j.1471-0528.2011.03112.x 
  2. Ariana, Proochista and Arif Naveed. An Introduction to the Human Development Capability Approach: Freedom and Agency. London: Earthscan, 2009. 228-245. Print.
  3. "خواتین کے لیے خطرناک ممالک: بھارت پہلے، پاکستان چھٹے نمبر پر"۔ ڈی ڈبلیو 
  4. "بھارت: 132 دیہات میں تین ماہ میں ایک بھی 'لڑکی پیدا نہیں ہوئی'"۔ انڈی پنڈنٹ اردو