جنسی تشدد

زبردستی جنسی تعلق قائم کرنا

جنسی تشدد عام طور پر عورتوں اور کم عمر لڑکیوں پر زیادتی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو کہا جاتا ہے۔ اس میں کئی بار جنسی کاروبار کے لیے انسانی بازارکاری اور بچوں کا استحصال جیسے امور بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

جون 2014ء میں ہونے والے عالمی موتمر کا ایک پوسٹر جس کا مقصد تنازعات میں جنسی تشدد کو ختم کرنا تھا۔

عورتوں پر جنسی تشدد روا رکھنے والے عورتوں کو کوئی چیز یا جسم محض سمجھتے ہیں۔ یہ باوجود اس کے ہے کہ جدید حقوق نسواں کی تحریکوں کے پیش نظر دنیا کے بیش تر ممالک میں عورتوں کو ایک آزاد اورزندہ سماجی اکائی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جس کوعزت کے ساتھ زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔[1]

جنسی تشدد کے پس پر جنسی غلامی اور جنسی ماتحتی بھی مطلوب ہو سکتی ہے۔ ایک جبری قوت اور سماجی میں اعلیٰ رتبہ بھی اس تشدد کو نہ صرف فروغ دیتا ہے بلکہ اسے ایک دائمی مقام بھی بخشتا ہے۔

چونکہ عالمی سطح پر ہم جنس پرستی بھی پھیل چکی ہے۔ اس لیے کئی بار لوگ اپنی ہی جنس کے لوگوں ہر جنسی خواہشات کی تکمیل کی خاطر تشدد برپا کرتے ہیں۔ کئی بار کم عمر لڑکے بڑی عمر کے آدمیوں کی جنسی خواہشات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بی بی سی عربی نے دس عرب ممالک اور فلسطینی علاقوں میں ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ممالک، تونس اور عراق، ایسے ملک ہیں جہاں زبانی اور جسمانی جنسی تشدد کی شکایات خواتین کی نسبت مرد زیادہ کرتے ہیں۔[2]

جنگ زدہ علاقوں میں جنسی تشدد ترمیم

31 جنوری 2018ء کو ریاستہائے متحدہ امریکا کی ہالی ووڈ کی فلمی اداکارہ انجلینا جولی نے میانمار کے صوبے راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کی خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی مذمت کی ہے۔ اس سے قبل اسی ہفتے تنازعات میں جنسی تشدد کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ بریمیلا بیتٹن نے کہا تھا کہ "میانمار کی مسلح افواج جنسی تشدد کا ارتکاب کرتی ہے"۔[3]

بھارت میں جنسی تشدد ترمیم

دہلی میں قائم جرائم کے اعدادوشمار کے قومی ادارے کی ایک 2017ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016ء میں جنسی زیادتی کے 1996 مقدمات درج کرائے گئے۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کی تعداد 1893 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ تعداد اکیلے دار الحکومت کی ہے جب کہ ملک بھر میں کئی ہزار واقعات رونما ہوئے ہیں۔[4]

پاکستان میں جنسی تشدد ترمیم

بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک پاکستانی غیر سرکاری تنظیم ‘‘ساحل‘‘ کے مطابق یکم جنوری سے 31 دسمبر 2015ء تک ملک بھر میں بچوں پر جنسی تشدد کے کل 3768 واقعات ریکارڈ کیے گئے اور ان بچو ں کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان تھیں۔ ان کے بقول روزانہ تقریبًا 10 بچے کہیں نہ کہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ شرح سال 2014ء کے مقابلے میں زیادہ ہے۔[5]

کم عمروں پر جنسی تشدد سے بچنے کے لیے عمومی تدابیر ترمیم

  • دوسرے لوگوں کی گود میں نہ بیٹھیں
  • دو سال سے بڑھ کر بچوں کے آگے کپڑے نہ بدلیں اور نہ ہی برسرعام بچوں کے کپڑے بدلیں۔
  • بچوں کی دوستیوں پر نظر ہونا چاہیے۔
  • بچوں کی بڑوں سے میل ملاپ سے ہچکچاہٹ کی صورت میں زور نہ دیا جائے۔
  • بچوں کے رویوں میں تبدیلی پر غور کیا جانا چاہیے۔
  • سن بلوغ کے قریب پہنچنے والے بچوں کو جنسی تعلیم ضروری ہے۔
  • متنازع انداز سے چھونے کی صورتوں کے بارے میں بچوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔
  • کسی سانحے کے ہونے کی صورت بچوں کو مورد الزام نہیں کیا جانا چاہیے۔ انھیں سانحے ابھرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔[6]

حوالہ جات ترمیم

  1. "جنسی تشدد Archives" 
  2. میگھا موہن اور حیدر احمد (15 جولائی، 2019)۔ "کیا عراق میں جنسی تشدد کا بڑا ہدف مرد ہیں؟" – www.bbc.com سے 
  3. "انجلینا جولی کی روہنگیا خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی مذمّت"۔ urdu.alarabiya.net 
  4. "بھارت میں خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ"۔ وی او اے 
  5. "پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ" 
  6. "بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات -"۔ 10 جنوری، 2018