بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد (انگریزی: Violence against Muslims in India) کی کئی واردتیں 1947ء سے پیش آتی رہی ہیں۔ یہ ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں وقتًا فوقتًا رو نما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں اگر چیکہ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کو کافی نقصان پہنچا ہے، تاہم ان کے ساتھ ساتھ کئی واقعات میں غیر مسلم اصحاب، بالخصوص ہندو اصحاب بھی تشدد کا نشانہ بنے ہیں اور ان کی جانوں اور مالوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ 1950ء سے ہونے والے ہندو مسلم فسادات یا تشدد کے کم از کم 6,933 واقعات ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم 10,000 افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ c[1]

مبینہ طور پر مذہبی فسادات

ترمیم
جائے وقوع مع نام شیر اور سال

مذہبی تشدد کے بھارت میں کئی واقعات پیش آئے ہیں، جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، نیز املاک کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ یہ فسادات بالعموم انیسویں صدی کی ابتدا میں غیر منقسم ہندوستان میں وقفے وقفے سے پیش آتے رہے ہیں۔ اگر چیکہ کہ فرقہ وارانہ فسادات بھی ایک طرح سے ہجومی تشدد کا ہی ایک روپ ہوتے ہیں، تاہم ان میں اور عام ہجومی تشدد میں کچھ فرق کی باتیں ہوتی ہیں۔ عمومی ہجومی تشدد عام طور سے کسی ایک شخص پر کئی افراد کا اچانک حملہ ہوتا ہے۔ اس میں مؤقت غصہ ہو سکتا ہے اور کوئی منصوبہ بند حکمت عملی نہیں ہوتی۔ اسی لیے کم از کم ابتدائی پولیس کی کار روائی کی حد تک ہی صحیح ملزم افراد کے خلاف ایف آئی آر اور مقدمے شروع کیے جاتے ہیں۔ کچھ معاملوں میں کار روائی اس کے آگے بھی بڑھتی ہے اور سزائیں بھی ممکن ہیں۔ تاہم فرقہ وارانہ فسادات کئی بار کافی منظم ہوا کرتے ہیں۔ اس میں عام طور سے نشانہ ایک فرد کی بجائے کسی فرقے کے کئی افراد ہوتے ہیں۔ کئی لوگوں کی جان، مال اور جائداد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور روپے پیسوں کی لوٹ مار بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کچھ فرقہ وارانہ فسادات میں عورتوں کی عصمت دری، بالخصوص اجتماعی آبرو ریزی بھی کی جا چکی ہے۔ ملک کے طویل فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ سے چند اہم نکات یہاں ذیل میں درج ہیں:

  • 1987ء میں 22 اور 23 مئی کی درمیانی شب کو رمضان کے مہینے میں ہاشم پورہ سے فوج کی نگرانی میں پچاس مسلمان نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا۔ بعد میں پی اے سی کے جوانوں نے انھیں غازی آباد ضلع کے مراد نگر قصبے کے نزدیک گنگا نہر پر اور دلی یوپی بارلار پر واقع ماکن پور گاؤں کے نزدیک ہنڈن ندی میں گولی مار کو بہا دیا۔[2]
  • 2002ء میں بھارت کی ریاست گجرات میں بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے۔ گجرات کے مسلم اکثریتی علاقوں ہود ، ضلع آنند، شیخ محلہ، سردار پورہ، گلبرگ سوسائٹی ، نرودا گاؤں، نرودا پاٹیااور کالو پورہ میں منظم طور پر مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہوئی۔ تقریبًا پچیس ہزار کے قریب مسلمانوں کے گھر اجاڑ دیے گئے اور آج بھی پانچ سو کے قریب لوگ لاپتہ ہیں لیکن حکومت کے ریکارڈ کے مطابق ان کی تعداد دو سو ہے۔[3] بھارت کی ایک عدالت نے 2016ء میں 2002ء میں ریاست میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے ایک واقعے پر 24 ملزمان کو قصوروار قرار دیا جن میں 11 پر قتل کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ یہ لوگ اس ہجوم کا حصہ تھے جس نے احمد آباد میں گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھس کر 69 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں سابق پارلیمانی رکن احسان جعفری بھی شامل تھے۔[4]
  • بھارت میں سال 2004ء سے 2017ء کے درمیان میں فرقہ وارانہ تشدد کے 10,399 واقعات ہوئے۔اس میں 1,605 لوگ مارے گئے اور 30,723 لوگ زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ 943 واقعات 2008ء میں ہوئے جس میں 167 لوگ مارے گئے اور 2,354 لوگ زخمی ہوئے۔ تشدد کے سب سے کم 580 معاملے 2011ء میں درج کیے گئے۔ ان میں 91 لوگوں کی موت ہوئی اور 1899 لوگ زخمی ہوئے۔ 2017ء میں فرقہ وارانہ تشدد کے 822 معاملے درج کیے گئے، جس میں 111 لوگ مارے گئے اور 2,384 زخمی ہوئے۔ جبکہ 2016ء میں 703 معاملے درج کیے گئے تھے، 86 لوگ مارے گئے تھے اور 2,321 زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح 2015ء میں 751 معاملے سامنے آئے، 97 لوگ مارے گئے اور 2264 زخمی ہوئے۔ جبکہ 2014ء میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے 644 معاملے سامنے آئے، 95 لوگ مارے گئے اور 1,921 لوگ زخمی ہوئے۔[5][6]
  • بھارت میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے جڑے کئی معاملے متنازع ہیں اور یہ دعوٰی کیا جاتا رہا ہے کہ صحیح تحقیقات اور مجرموں کو سزا دلانے کا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا گیا۔ 2007ء میں ہوئے گورکھپور کے فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں الٰہ آباد ہائی کو رٹ کے فیصلہ کو غیر قانونی قرارا دیتے ہوئے معروف ایڈوکیٹ فرمان احمد نقوی نے کہا کہ اس درخواست میں سب سے پہلے یہ گزارش کی گئی تھی متنازع فرقہ وارانہ فساد کی غیر جانبدارانہ جانچ کر وائی جائے۔کیوں کہ جو سی بی سی آئی ڈی کی ٹیم اس پورے معاملے کو دیکھ رہی تھی، اس نے کام ٹھیک سے نہیں کیا تھا۔ وکیل موصوف نے 2018ء میں اس معاملے کو سپریم کورٹ سے رجوع کروانے کا اعلان کیا تھا۔[7]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Christophe Jaffrelot (1999)۔ Hindu Nationalist Movement and Indian Politics۔ London: Christoper Hurst 
  2. "ہاشم پورہ اور ملیانہ میں مسلمانوں کے قتلِ عام کی کہانی"۔ بی بی سی اردو) 
  3. "گجرات: فسادات کے پانچ سال بعد"۔ بی بی سی اردو) 
  4. "بھارت: گجرات فسادات میں ملوث 24 افراد قصوروار قرار"۔ وائس آف امریکا) 
  5. "2004 سے 2017 کے درمیان میں فرقہ وارانہ تشدد میں 1600 سے زیادہ لوگوں کی موت؛ آر ٹی آئی"۔ ایشیا ایکسپریس (روزنامہ)۔ 08 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2020 
  6. "2004 سے 2017 کے درمیان میں فرقہ وارانہ تشدد میں 1600 سے زیادہ لوگوں کی موت؛ آر ٹی آئی"۔ دی وائر اردو 
  7. "سال 2007کے فر قہ و ارانہ فسادات کا معاملہ"۔ روزنامہ سیاست 

بیرونی روابط

ترمیم