بیلجیم میں مسلمانوں کی تعداد ملک کی کل آبادی میں 320000 سے 450000 کے بیچ ہے-یہ تقریبًا 4٪ فیصد ہے۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک کی طرح بیلجیم میں مسلم آبادی بہت حد تک نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ترکی اور مراقش کے لوگوں کی ہی تعداد زیادہ ہے جو ملک میں سب سے بڑے مسلم گروپ ہیں، 35 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی عمر 18 سال کی عمر سے نیچے ہے۔ اس کے برعکس آبائی بیلجیم میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد 18 فیصد ہے۔ مقامی تقسیم کے نتیجے میں بعض علاقوں میں نوجوانوں کا بہت زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہے۔ 2002 میں برسلز کے علاقے میں بچوں کے ناموں میں سب سے زیادہ مقبول نام محمد اور سارہ تھے۔

مساجد

ترمیم

بیلجیم میں کل ملاکر سرکاری طور پر تسلیم شدہ 75 مساجد ہیں جہاں سرکاری طور پر ائمہ کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ مساجد بیلجیم میں موجود ہیں۔[1]

اہل بلجیم کی اسلاموفوبیا سے بے زارگی

ترمیم

2017ء میں ہالینڈ کے اسلام مخالف سیاست داں گریٹ وایلڈرز کو اس سال اکتوبر / نومبر میں بلجیم کا اپنا مجوزہ دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ اس کی وجہ [گریٹ وایلڈرز کی اسلاموفوبیا پر مبنی اپنی شبیہ ہے۔ بلجیم کے دانشور، مصنفین، سیاست دان اور عوام بالعموم گریٹ وایلڈرز اور اسلاموفوبیا کے مخالف ہیں۔ اسی کی وجہ بلجیم کے بروکسل کے مئیر فیلیپه کلوس اورمولنیبک کے مئیر فرانسوا اسهپمانس نے شدت پسندوں کو اجتماع کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، اس تعریف گریٹ وایلڈرز اصح شخص تھے۔ بہ طور خاص کلوس نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ وایلڈرز اس ملک میں نفرت کا پیغام عام کرے۔ اپنی نفرت انگیز مہم کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے وایلڈرز نے اجازت نہ ملنے پر غصے کا اظھار کرتے ہوئے کہا کہ یورپی شہروں میں آزادانہ اجتماعات کی اجازت نہ ملنا قابل افسوس ہے۔ یہ غور طلب ہے کہ گریٹ وایلڈرز اپنے جلسوں مسلمانوں، قرآن اور رسول اسلام کو کھل کر اپنی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ وہ اپنے وطن ہالینڈ کے انتخابات میں قرآن و مساجد پر پابندی کے نعرے کے ساتھ امیدوار بنے تھے مگر وہ اپنے ملک کے عوام کے ہاتھوں بھی شکست سے دوچار ہوئے تھے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم