تاجکستان میں خواتین
تاجکستان میں خواتین (انگریزی: Women in Tajikistan) کی عام زندگی میں حصے داری کا آغاز بڑی حد تک اس دور کی مرہون منت ہے جب وہ سوویت اتحاد کا حصہ رہا تھا۔ 1930ء کے دہے میں سوویت ارباب مجاز نے اس علاقے میں خواتین کی برابر حصے داری کی مہم چھیڑی، جس طرح سے کہ یہ مہمیں دیگر وسط ایشیا کے ممالک میں چھیڑی گئی تھی۔ شروعات میں ان اقدامات کی کڑی مخالفت کی گئی تھی۔ مثلًا شروع شروع میں برسر عام بے نقاب آنے والی خواتین کا سماجی مقاطعہ کیا گیا یا پھر کچھ جگہوں پر ایک کام کے لیے خواتین کا ناموسی قتل کیا گیا تھا۔ مگر یہ صورت حال بدلتے گئی اور دھیرے دھیرے ہر عام شعبہ حیات میں خواتین کی حصے داری قبولیت کا درجہ پانے لگی۔
جدید سرکاری رہنمایانہ خطوط
ترمیمتاجکستان کی حکومت نے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں خواتین کو یہ بتایا گیا ہے کہ انھیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس کتاب میں مختلف باب ہیں جن میں خواتین کو کام پر جاتے وقت، قومی اور سرکاری چھٹیوں کے موقع پر، شادیوں اور ہفتہ وار چھٹیوں تک کے موقع پر پہننے کے لیے کپڑوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کے آخر میں ایک باب ہے جس میں تاجک خواتین کو بتایا گیا ہے کہ انھیں کون سے کپڑے نہیں پہننے چاہیے۔ اس میں خواتین کو سیاہ لباس اور حجاب وغیرہ پہننے سے منع کیا گیا ہے۔[1]
حجاب پر پابندی
ترمیم2016ء میں تاجکستان میں اسلامی حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تاجکستان کے وزیر ثقافت شمس الدین نے نقاب پر پابندی کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی نقابی خواتین کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ انھوں نے کوئی چیز نہ چھپائی ہو۔[2]
یہاں کی حکومت نے داڑھی رکھنے، حج کرنے اور خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ نجی چینل کے مطابق حکومت کی طرف سے نوجوانوں کو داڑھی رکھنے، خواتین کو حجاب کرنے، حج پر جانے اور بچوں کے عربی نام رکھنے پر بھی پابندی ہے۔ جبکہ تاجک حکومت کی طرف سے داڑھی رکھنے والے نوجوانوں کو اس جرم کی پاداش میں اذیتیں دے کر قتل کیا گیا ہے۔[3] حالاں کہ یہ ملک بہت زیادہ اسلامی شعائر اور مناسک کا تابع نہیں ہے، تاہم خواتین اور مردوں پر ان پابندیوں کے عائد کرنے سے مغربی مبصرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مقصد ملک کو اسلامی اساسیت پسندی سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔