پتھر کے زمانے سے لے کر ایٹم بم کے زمانہ تک مختلف قوموں کے عروج و زوال، سلطنتوں کے جنگ و جدال ، نوع انسانی کے تمدن حالات ، معاشرتی انقلابات، علمی فکری اور نظریاتی کی ہر گونہ ترقیات کی داستان جو آثار، تاریخ روایات اسناد اور شواہد پر مشتمل ہے اسے مطالعہ تاریخ اقوام عالم کہا جاتا ہے۔[1][2]

ازمنہ اور ادوار کی تقسیم( Division of Ages and Periods) ترمیم

سطح ارضی پر نوع انسانی کے موجود ہونے کے قدیم ترین آثار جو اس وقت دستیاب نہیں یا جتنے ہو سکے ، ان میں ایک نشانی چقماق [3]کے نوکیلے سے اوزار سے ملتی ہے۔[4][تاریخ اقوام عالم، از مرتضیٰ میکش 1]

اس دور میں لوگ پتھر تراش کر گھر بناتے تھے،

نوع انسانی کی ابتدا ترمیم

چودہ کروڑ سال پہلے کے دور میں خشکی پر پیٹ کے بل رینگنے والے جانوروں اور کھچووں کے آثار اور ٹانگیں رکھنے والے حیوانات کی بہتات کا سراغ بآسانی دستیاب ہے، جن میں سو سو فٹ لمبے بھاری بھرکم دلدلی حیوان بھی شامل ہیں،

چار کروڑ سال سے لے کر ایک کروڑ سال پہلے کی بنی ہوئی چٹانیں ظاہر کرتی ہیں کہ کرہ ارض پر گھاس ، سبزی اور جنگلات کی بہتات ہو گئی تھی،

لیکن ڈارون [5]کا نظریہ یکسر مختلف ہے اور شدید اختلاف کی وجہ سے بہت تنازع کا باعث بنا رہا رہا ہے،

اس دور میں باشعور انسان بعد میں اپنی حیثیت کے ساتھ ظہور میں پائے جاتے ہیں ، لوگ درختوں کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے ، کم کم بولنا اور چیزوں کے نام کم رکھنا ،ہتھیار کے طور پر لکڑی کے ڈنڈوں کا استیمعال کرنا ، مرخوں کو دفنانا ، پتھروں کو تراش کر گھر بنانا ، ان کا معمول کا کام تھا

انسان کی پیدائش، مصری خیالات ترمیم

پرانے مصریوں کا خیالات تھا کہ "خانوموں دیوتا "نے جو سب دیوتاوں کا باپ ہے انسان کا پتلا، اس طرح بنایا جس طرح کمھار چاک پر برتن بناتا ہے[6]

یونانیوں کے خیالات ترمیم

یونان کی پرانی روایت یہ ہے کہ "" پرومیتھیس "" دیوتا نے یونان کے ایک ساحل پر ایک مقام نیوپیئس کی مٹی سے انسان بنائے تھے[7],

،

ہندوؤں کی روایات ترمیم

ہندوؤں کی روایات طویل اور قدیم ہیں ان کے نظریات اور خیالات سب فاسق ہیں ، کوئی بھی پہ با مضبوط روایت نہیں ملتی، موجودہ انسانی کا موجد یا جد امجد Grandfatherدیوس ونت ہے، اسی انسان کو فروغ دیا۔[8]

[9]

مسلمانوں کا نظریہ ترمیم

مسلمانوں کی الہامی کتاب " قرآن مجید " میں انسان کو کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا اور اس سے اس کی[10]زوجہ [11]Better Halfبنائی[12] جن سے نسل انسانی پھیلی،[13]


پتھر کا زمانہ { اول} ترمیم

اس دور میں انسانوں نے شکار کرنا سیکھا یہ دور 50 ہزار قبل مسیح سال سے 25 ہزار قبل مسیح سال تک پھیلا ہوا ہے ۔

پتھر کا دوسرا بڑا زمانہ ترمیم

یہ زمانہ 25 ہزار سال قبل مسیح سے 10 ہزار قبل مسیح سال تک ہے اس دور میں انسانوں نے زراعت کا کام کرنا سیکھا ، تصویر کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع کیا، گندم کی دریافت ہوئی، دجلہ و فرات کے کنارے آباد کاریوں[14] کی کثرت ہوئی۔مٹی کے گھر اور برتن بنانے کا کام عروج پر تھا،اور انسانوں دھاتوں سے ہتھیار نانے لگا، جس سے جدیدیت کو فروغ ملا، [15][16]



پتھر کا جدید دور ترمیم

پتھر کا جدید دور 10 ہزار سال سے 5 ہزار سال قبل مسیح کے درمیان پھیلا ہوا ہے، اس دور میں جانوروں[17]کو پالنا اور سدھانا سیکھا اور دیہات قصبات و شہر کی تعمیرات کا عظیم الشان دور ہوا ، قبائلی دور شروع ہوا، مذہبی پیشوا اور قومی سرداروں کا آغاز ہوا، پختہ اینٹوں سے مکانات کی تعمیرات شروع ہوئی، کپڑے بنانے اور اس کی مکمل حرفت کا کام شروع ہوا، اس دور میں جو سب سے اہم موڑ آیا وہ تھا نسلی گروہی زبانوں، عقیدوں اور قومی مذہبی طبقوں میں تقسیم ہو گئے اور نہ رکنے والا تصادم شروع ہوکر رہ گیا،جو آج بھی جاری ہے[18]

پتھر کا پانچواں زمانہ جدید ترمیم

اس دور میں انسانوں میں برائیوں نے جنم لے لیا اور اس کے سد باب کے لیے اللہ تعالٰی نے [19]طوفان بھیجا جس کو طوفان نوح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،[20]

طوفان نوح کے بعد جو سب سے زیادہ طاقتور اور بہترین قوم ابھری وہ سمیری تہذیب تھی، اس کے آثار دجلہ و فرات[21] کی وادی کے زیریں حصے میں اباد تھی،سمیری کا معنی سرزمیں جنوب کے باشندے [22]سمیری تہذیب کا پہلا بادشاہ کیش تھا اور خاندان کیش کہلایا ،اس دور میں لوگوں نے پختہ اینٹوں سے مکانات بنانے شروع کیے،تانبے اور سونے کی دریافت اہم واقع تھی، فن تحریر سے  لوگ واقف ہوئے، اسی دور میں دریائے نیل کے کنارے آبادکاروں کی کثرت ہونے لگی تھی،[23]

پتھر کا چھٹا زمانہ ترمیم

اس دور میں نمایاں نام سمیریوں کا ہے جس کی تہذیب انتہائی و عروج پر تھی اس دور مصر میں اہرام کی تعمیر ہوئی،جو اج بھی اسی حالت میں موجود ہیں، پتھروں کو تراش کر مقبرے بنانے کا فن عروج پر تھا،بڑے بڑے مندروں اور محلوں کی تعمیرات ہوئیں، عراق میں نمرود اور مصر میں فرعون کی بادشاہت عروج و کمال پر تھی،[24] و اس دور می چینیوں کا قدیم مذہب بھی نمایاں ہوتا ہے، بابل میں حمورابی اعظم[25] کا دور تھا جو 2067قبل مسیح میں تخت نشین ہوا، حمورابی تمام عراق سمیریوں کا بادشاہ تھا، حمورابی کا انتقال 2024 قبل مسیح میں ہوا،اس دور میں جناب رسول اعظم ابراہیم علیہ اسلام[26] کا ذکر بھی ہے انھوں نے نمرود[27] کے خلاف جہاد کیا، حضرت ابراہیم علیہ اسلام ار کے تیسرے شاہی خاندان Royal family کے ہم عصر تھا،ابراہیم علیہ السلام [28]نے کعبہ شریف کی تعمیرات کی ، مکہ کے گرد آبادی بڑھی۔ [29] ہندوستان میں اس وقت وادی سندھ کے کنارے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں، تاریخ خاموش ہے۔ [30]

حواشی ترمیم

  1. چقماق پتھر ، آگ جلانے کے کام آتا تھا ،

حوالہ جات ترمیم

  1. استشهاد فارغ (معاونت) 
  2. مرتضی احمد میکش ، 1899ء تا 1959 ء لاہور، تاریخ دان ، صحافی، کالم نگار
  3. یہ پتھر آگ جلانے کے لیے کام آتا تھا، روشنی کا ایک واحد اور اہم ترین کردار تھا،کئی ادوار تک اسی سے کام لیتے رہے۔
  4. آگ جلانے کے لیے کام آتا تھا
  5. ڈارون ایک محقق اور مورخ
  6. استشهاد فارغ (معاونت) 
  7. تاریخ اقوام عالم
  8. استشهاد فارغ (معاونت) 
  9. استشهاد فارغ (معاونت) 
  10. پسلی سے
  11. بیوی
  12. سورہ بقرہ ، رحمان
  13. مرتضئ احمد میکش
  14. تاریخ اقوام عالم ص 56
  15. میکش ، مرتضیٰ احمد
  16. تاریخ اقوام عالم
  17. دودھ کے لیے گائے بکریاں اور گھوڑے سواری کے لیے
  18. میکش، مرتضیٰ احمد
  19. طوفان سے قبل حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ نے مبعوث فرمایا تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہو جائے مگر  لوگ نا سمجھ تھے ، انھوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور پھر طوفان نے سب کو غرق کر دیا
  20. تاریخ عالم ، تاریخ اقوام عالم،
  21. میکش مرتضئ احمد
  22. تاریخ اقوام عالم ص 84
  23. تاریخ اقوام عالم ص 84
  24. تاریخ اقوام عالم ص 92
  25. تاریخ اقوام عالم ص 90 عالمی معلومات ص 157 تہزیبوں کی تاریخی حیثیت
  26. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے، آپ علیہ السلام کے چچا آزر تھے جو بت پرستی میں بدنام تھا،
  27. نمرود بت پرست تھا
  28. حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر
  29. مرتضی احمد میکش
  30. تاریخ اقوام عالم