تبادلۂ خیال:حیا (اسلام)
سابقہ مواد
ترمیمیہ مقالہ ایک نامعلوم آئی پی نے بنایا تھا اور اس میں ایسا مواد بھی شامل تھا جو دائرۃ المعارف کے معیار کے مطابق نہ تھا لہذٰا میں نے اسے تبادلۂ خیال پر منتقل کر دیا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ یہ بے حیائی اور بے شرمی کی وباء مغرب سے مسلمانوں میں آئی ہے اور اس بے حیائی اور بے شرمی کو منظم انداز میں مسلمانوں کے اندر عام کر نا یہ یہود و نصاریٰ اور ہنود وغیرہ کی ایسی سازش ہے جو آج مکمل طور پر کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے مسلمان کس طرح مغربی انداز کو اختیا ر کر ہا ہے، کس طرح سے آنکھیں بند کر کے کافروں کی پیروی کر رہا ہے یہ بات محتاجِ بیان نہیں المختصر قیامت قریب سے قریب تر آرہی ہے،
موجودہ صورت حال
ترمیمیہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ میڈیا ذرائع مَثَلاً ریڈیو، ٹی وی کے مختلف چینلز اور مُتعدِّد رسائل اور اَخبارات بے حیائی کو فَرُوغ دینے میں مصروف ہیں جس کی بِناء پر ہمارا مُعاشَرہ فَحَّاشی، عُریانی و بے حیائی کی آگ کی لپیٹوں میں آچکا ہے بالخصوص نئی نسل اَخلاقی بے راہ روی و شدید بدعملی کا شکار ہے، فلمیں ڈِرامے، گانے باجے، بیہودہ فنکشنز اور تہواروں کی کثرت ہو گئی ہے اکثر گھر سینما گھر بن چکے ہیں گویا کہ ایسا دَور آچکا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر معاذاللہ جہنم میں گرنا چاہتا ہے، اس تباہی اور بر بادی کا اندازہ خوشی کے موقع پر منعقد کردہ تقاریب میں ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس مال و دولت کم ہے تو صرف فلمی گانوں کی ریکارڈنگ فنکشن میں لگاتا ہے، جو کچھ مال دار ہوتا ہے وہ ان تقاریب میں مُووی بھی بنواتا ہے اور جو کچھ زیادہ مالدار ہوتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کرتا ہے پیشہ ور گلوکار اور گلوکارہ کو، کا میڈین کو بلو ا کر ڈانس پارٹی، بیہودہ باتوں کی مجلس گرم کی جاتی ہے، مرد و عورت مُوسیقی کی دُھن پر بے ڈھنگے پن سے ناچتے، گاتے ہیں، مہمان خوب اُودھم مچاتے، بیہودہ فِقرے کَستے، مزید اس پر ہنستے، قہقہے لگاتے اور زور زور سے تالیاں اور سیٹیاں بجاتے ہیں۔ اس قسم کی حرکتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ گویا شرم و حیاء کا جنازہ نکل چکا ہے ہر جگہ شرم و حیاء کا قتلِ عام اور بے حیائی کی دھوم دھام ہے۔ ★★ ابنِ سیف ★★ 05:45، 24 جون 2021ء (م ع و)
حیا والوں کو گوگل جانتا ہے۔ نیا فون لینے پہ دو دن میں یوٹیوب جان جاتی ہے کہ یہ ہاتھ حیا والے ہیں یا نہیں، ایک فکر انگیز تحریر
ترمیمحیا والے
بات پردے یا کپڑوں کی نہیں ہے، بات حیا کی ہے۔ بات داڑھی اور ٹوپی کی بھی نہیں ہے، مسئلہ حیا کا ہے۔ حیا___جو مرد و زن دونوں کی ضرورت ہے، فطرت ہے، خصلت ہے۔ حیا___جو دل میں بستی ہے، لہو میں بہتی ہے۔ حیا والے لڑکے اور حیا والی لڑکیاں وہ ہیں جنہیں اپنے رب کے سامنے جھوٹ بولتے حیا آتی ہے۔ جنہیں رب کی نگاہوں میں ہوتے ہوئے بےانصافی کرتے ان کے ہاتھ لرزنے لگتے ہیں۔ ان کی آنکھیں برائی کی جانب پلکیں نہیں اٹھاتیں۔ ان کا دل دورخی کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ ان کی سانسیں پیسے کی خوشبو پہ نہیں بہکتیں۔ حیا والوں کو گوگل جانتا ہے۔ نیا فون لینے پہ دو دن میں یوٹیوب جان جاتی ہے کہ یہ ہاتھ حیا والے ہیں۔ حیا والوں سے فیس بک بھی حیا کرتی ہے، وہ انہیں ہر چیز نہیں دکھا دیتی۔ جانتی ہے کہ وہ حیا سے عاری لوگوں اور چیزوں پہ ناپسندیدگی دکھاتے ہیں۔ اسے بتاتے ہیں کہ آئندہ ہمارے آگے یہ بدی کے استہار مت کرنا۔ وہ انہیں خود حیا والوں سے ملواتی ہے، ان کے ساتھ جڑواتی ہے۔ حیا والے جانتے ہیں کہ رب کے آگے اپنے عذر میں دوسروں کے گناہ پیش کرنا بڑی شرم کی بات ہو گی۔ اس لیے باحیا مرد مائل ہونے والی عورتوں سے خود ہی فاصلہ رکھ لیتے ہیں۔ باحیا عورتیں خود ہی کسی کو مائل ہونے کا موقع نہیں دیتیں۔ حیا والے جانتے ہیں کسی کی نظریں جھکانے کے لیے اپنی نگاہوں کا رخ جانبِ زمیں کرنا ضروری ہے۔ انہیں بڑھ بڑھ کر دوسروں کو اخلاقیات اور اوقات سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، حیا خود ہی مخالف کو شرما دیتی ہے۔ حیا والے صنفِ مخالف کے سر پہ جا کھڑے نہیں ہوتے، اک فاصلہ رکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو سے شہد ٹپکتا ہے نہ انگارے برستے ہیں، وہ متانت سے بات کرتے ہیں۔ وہ صنفِ مخالف پہ بِچھتے ہیں نہ اس سے بدکتے ہیں، اپنے دائرے میں رہتے ہیں۔ وہ کہیں بھی ہوں، انہیں ذمہ داریاں نبھاتے میں کوتاہی کرنے سے حیا آتی ہے۔ انہیں اپنے کام دوسروں پہ ڈالتے شرم آتی ہے۔ حیا والے لڑکے اور لڑکیاں الله سے دل کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں۔ یونہی__اگر کوئی دل سے چُھو جائے تو وقار کے ساتھ پیغام گزار دیتے ہیں۔ جواب اگر منفی آئے تو دل کو مطمئن کر کے آگے گزر جاتے ہیں۔ کسی کے پیچھے پڑ نہیں جاتے۔ کسی کے لیے مر نہیں جاتے۔ فقط الله کے آگے دل کھول کر رکھتے ہیں۔ تنہا اپنی کسک سہتے اسی کی بارگاہ میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اشکوں میں بہہ جاتے ہیں مگر شیطان کو 'ہاں' نہیں کرتے۔ حیا والے نسبت طے ہونے کے بعد بھی اس کے آگے حجاب نہیں اٹھاتے۔ باہم رضا تو کیا، محبت و وفا بھی ہو تو رب کے نام پہ رسی کی گرہ کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بات اعتماد کی نہیں، حیا کی ہے اور خاندان بےحیائی سے نہیں بنتے۔ حیا والے___رشتے میں بندھتے ہیں تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو ایک دوسرے کے حصوں سے جوڑتے ہیں۔ وہ تنہا نہیں مسکراتے، وہ اکیلے نہیں کھاتے، وہ الگ نہیں سوچتے۔ وہ اکٹھے ہنستے ہوئے آنگن بساتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خاندان کو اپنا کر گھل جاتے ہیں۔ محبتوں میں کبھی کمی نہیں لاتے۔ رسی کی گرہ میں نمی نہیں لاتے۔ حیا والے گھر سے باہر ایک دوسرے کا خیال تو رکھتے ہیں مگر سرعام قربت کے جام چھلکا کر دامن داغدار نہیں کرتے۔ میں رسمِ عاشقی کو شہر میں رسوا نہیں کرتا محبت میں بھی کرتا ہوں مگر چرچا نہیں کرتا حیا والے اپنے لباس میں سوراخ کرنے سے حیا کرتے ہیں۔ اپنے رشتے کے ہوتے دوسروں پہ جھکنے سے حیا کرتے ہیں۔ اپنے رازوں کا مرتبان گلی میں انڈیلنے سے حیا کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ حیا والے ماں باپ کی اولاد ہیں اور یہی ورثہ اپنی اولاد کو آگے تھما جاتے ہیں۔ حیا والے اپنی چال سے پہچانے جاتے ہیں۔ اپنے خد و خال سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ جینے کا مقصد بڑا رکھتے ہیں اور عزائم کے اقبال سے پہچانے جاتے ہیں۔ حیا دین سے ہے اور مسلمان حیا سے بہرحال پہچانے جاتے ہیں!
مریم خالد طائرِحرم