تبادلۂ خیال:سیتلا مندر
آثار قدیمہ،
ترمیمیہ مندر شاہ عالمی و لوہاری دروازے کے درمیان, سرکلر روڈ پر واقع ہے. سیتلا مائی ہندو دھرم میں جلد کی بیماریوں سے شفاء دینے والی دیوی کے طور پر جانی جاتی ہے. سیتلا مائی کو ارسرو اور دودھ والی سیتلا بھی کہتے ہیں. لاہور کے علاوہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں مائی سیتلا کے منادر موجود ہیں. برصغیر کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ سیتلا مندر میں آنے والا ہر چیچک کا مریض صحت یاب ہو جاتا ہے. منشی رام پرشاد ماتھر لکھتے ہیں "سیتلا ، پاریتی یا دیوی کی ایک اجمالی شکل ھے. چونکہ یہ چیچک کے مریض کو سکون بخشتی ھے. اس کو دیگر معنوں میں ٹھنڈک بھی کہتے ہیں." لغت میں بھی سیتلا کا معنی چیچک کی دیوی ملتا ہے. سیتلا مندر کا درست سن تعمیر تو کتب تواریخ میں درج نہیں. البتہ اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ یہ مندر سکھ دور سے قبل کا ہے اور پھر سکھ عہد میں اس کی تعمیر نو کی گئی. لیکن یہاں رہائش پذیر لوگ اس مندر کو بہت قدیم بتاتے ہیں ان کے بقول "یہ مندر رام نے سیتا مائی کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا اور سیتا مائی بن باس میں یہاں رہیں." کچھ ایسا ہی دعوی ملتان کے رام تیرتھ مندر کے متعلق بھی کیا جاتا ہے. مگر ایسی کسی روایت کی تائید تاریخی شواہد سے نہیں ہوتی. کسی زمانے میں اس مندر میں کافی رونق ہوتی تھی, خصوصاََ جب چیچک کی بیماری کا زور ہوتا. اس ضمن میں سید محمد لطیف لکھتے ہیں "یہ مندر سیتلا ماتا یا چیچک دیوی کی دیوی کے لیے وقف ہے. یہ خاص طور پر ہندوؤں اور ان بچوں کی ماؤں کے لیے بہت بڑی عبادت گاہ ہے,جن کے بچوں کو چیچک کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے. وہ دیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیوی کی پوجا کرتے ہیں, اس کے آگے چڑھاوے چڑھائے جاتے اور نذرانے پیش کیے جاتے ہیں." تقسیم سے قبل جب بھی چیچک کی بیماری پھیل جاتی تو سیتلا مائی کی خاص پرستش کی جاتی تھی. ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی سیتلا مندر آتے تھے. مندر کافی وسیع رقبہ پر تھا. قدیم مندر کی عمارت کے متعلق کہنیا لال لکھتے ہیں "یہ مکان سکھوں کی سلطنت سے پہلے ایک مختصر سا چبوترہ بنا ہوا تھا، سکھی وقت میں بہت بڑا مکان بن گیا اور بہت سی لاوارث زمین‘ جو مہنت نے اپنے مکان کے متعلق کر لی تھی‘ وہ اب ملکیت اس استھان کی قرار پا گئی ہے. کرایہ اس کا سب مہنت لیتا ہے اور چڑھاوے کی روزمرہ آمدنی علاوہ ہے. اس استھان کا احاطہ مربع بہت بڑا بنا ہوا ہے. پختہ دیوار سے احاطہ محیط ہے، دروازہ مکان کا شمال کی سمت کو ہے اور دروازے کی دونوں سمت غرب و شرق دکانیں پختہ بنی ہیں‘ جس میں کرایہ دار رہتے ہیں." کہنیالال نے آگے عمارت کی خاطر خواہ تفصیل بیان کی ہے. لاہور میں سیتلا دیوی کا ایک اور مندر موچی دروازے میں موجود محلہ پوربیاں میں بھی تھا. چیچک کی بیماری کے علاوہ یہاں دیوالی کا خصوصی جشن بھی ہوتا تھا. جس کا آنکھوں دیکھا حال یونس ادیب صاحب نے اپنی کتاب "میرا شہر لاہور" میں یوں بیان کیا ہے "(دیوالی کے روز) سب سے زیادہ رش شاہ عالمی اور لوہاری دروازے کے درمیان نیا بازار کے سامنے والے سیتلا مندر میں ہوتا تھا. میں بھی اپنے ہندو دوستوں پرکاش, سدرشن اور لالی کے ساتھ سیتلا مندر میں چلا جاتا تھا. سنگ مرمر کے بنے ہوئے سیتلا مندر کی طرف آنے والے راستوں پر ہندو عورتیں, لڑکیوں مردوں اور بچوں کی قطاریں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں. اجلی سفید اور قیمتی ساڑھیوں والی ہندو عورتیں اور ہر عمر کے ہندو دیوالی کے موقع پر ماتھے پر سیندور کا گاڑھا تلک لگاتے تھے اور تلک کے سیندور پر تین چار چاول کے دانے چکے ہوتے تھے. مسلمان پُھلیرے جو لوہاری اور بازار ستھاں میں رہتے تھے, پھول اور ہار لیے کھڑے ہوتے تھے اور مسلمان کوچوانوں کی آوازیں برابر سنائی دیتی رہتی تھیں. سیتلا مندر میں آنے والے ننگے پیر آتے تھے اور بعض اوقات سفید اجلے اور تصویروں جیسے ننگے پیر بڑے پیارے لگتے تھے. مندر کی ڈیوڑھی بہت بڑی تھی اور اندر مستطیل تالاب کے دونوں جانب سنگ مرمر کے راستے تھے. اندر داخل ہونے والے سب سے پہلے تالاب کے پانی سے اپنے پیر دھوتے اور بھجن پڑھتے ہوئے درگا دیوی کے بت والے استھان کی طر ف بڑھنے لگتے. اس وقت مندر کی آمدنی کے بارے میں عجیب عجیب باتیں سننے میں آتی تھیں کہ پجاریوں کے پاس سونے کی اینٹیں اور ہیرے جواہرات کے انمول خزانے ہیں. میں سیتلا مندر میں درگا دیوی کا بت بڑے غور سے دیکھا کرتا تھا حسن, رحم اور محبت کے نین نقشوں والی درگا دیوی کا بت سونے چاندی کے زیورات سے سجا ہوتا تھا. اور فنی طور پر اتنا مکمل تھا کہ اس کے خطوط, ابھار نقش, خدوخال اور پوری اناٹومی ہر زاویے سے کامل تھی اور اس میں بڑی کشش تھی. بڑا پیار تھا اور مقدس لگتا تھا. درگا دیوی کے بت کے آگے پیتل کی نادر تھالیوں میں رکھے ہوئے اگر دانوں میں عنبر و لوبان سلگ رہا ہوتا. پھولوں کے ڈھیر سے مہک اٹھ رہی ہوتی, عورتوں, بچوں, مردوں اور لڑکیوں کے جھکے ہوئے سر گزرتے جاتے. گھنٹیوں اور بھجنوں کی سریلی آوازیں رنگارنگ تصویروں میں بدل جاتیں." پران نوائل نے بھی ذکر کیا ہے کہ "سیتلا مندر ہندوؤں کے لیے پوجا کا سب سے بڑا مرکز تھا. جہاں چیچک کے مریضوں کا ہجوم رہتا کیونکہ ہندوؤں کا یقین تھا کہ یہ بیماری صرف ماتا کی رحمت سے ٹھیک ہوسکتی ہے اور ماتا کی تعریف کے لیے خصوصی بھجن گانے, گائیک بلائے جاتے." مندر کی موجودہ حالت نہایت خستہ ہے حتی کہ اس شان و شوکت والے مندر کے آثار بھی اب مشکل سے ملتے ہیں. تقسیم ہند کے وقت سیتلا مندر کو جن لوگوں نے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا وہی اب یہاں مستقلاََ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں. سیتلا مندر متروکہ وقف املاک کے زیر انتظام ہے اور انہی سے اجازت لے کر غریب غربا نے یہاں اپنے کچے مکان تعمیر کیے ہیں اور مکان بھی کیا ہیں قبروں سے بھی مختصر. یہاں پر ایسے کئی رہائشی ہیں, جو پیدا بھی یہیں ہوئے انکی شادیاں بھی یہیں ہوئیں اور زندگی کا خاتمہ بھی اسی تاریخی عمارت میں ہوا, گود سے گور تک پہنچنے میں کئی برس تو بیت گے لیکن حالات بدستور ویسے ہی رہے. تقریباً ٣٥۰ خاندان یہاں مقیم ہیں. تاریخی سیتلا مندر میں پہلے کافی بت موجود تھے, جن کی تفصیل کہنیالال کی کتاب میں مل جاتی ہے. یہاں پتھر کا ایک خوشنما شیر بھی ہوتا تھا. بتوں کے علاوہ دیگر منادر کی طرح سیتلا مندر میں موجود درختوں کو بھی متبرک مانا جاتا تھا. خصوصاً یہاں موجود بوہڑ کے درخت کوخصوصی اہمیت حاصل تھی. شاید اسی بوہڑ کے درخت کہ باعث اس مندر کو دودھ والی سیتلا کا مندر بھی کہا جاتا ہے .ڈاکٹر ایم ایس ناز کا بیان ہے کہ سیتلا مندر کے اندر بھی ایک چھوٹا سا مندر تھا جسے شوالہ کہتے تھے. یعنی سیتلا مندر کے اندر ایک شو جی کا مندر بھی تھا. اس بیان کی تائید نقوش "لاہور نمبر" سے بھی ہوتی ہے. انگریز دور میں مندر کے کچھ حصہ کو خرید کر یہاں سے میو ہسپتال کے لیے سیدھی سڑک نکالی گئی تھی. ١۹٦۲ء میں شائع شدہ نقوش "لاہور نمبر" میں سانحہ بابری مسجد سے قبل اور تقسیم ہند کے فوراً بعد کہ سیتلا مندر کا جو احوال درج ہے اس سے معلوم پڑتا ہے کہ مندر کی حالت اس وقت بھی کچھ اچھی نہ تھی. مگر اب تو مندر کا نہ گنبد ہے نہ برج. نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر دیوار کے البتہ کہیں کہیں کچھ آثار موجود ہیں. مندر کے مرکزی دروازہ کے باہر دوکانیں ہیں, جن میں سے ایک دکان کے بورڈ کے پیچھے مندر کے نام کی تختی بھی نظر آتی ہے. جس پر ہندی, اردو و انگریزی میں درج ذیل عبارت درج ہے "شری سیتلا مندر لاہور. ڈیوڑھی تعمیر کردہ مہنت پریم گیر جی. ١٤ فروری ١۹١٦ء." مندر کے بچ جانے والے آثار کا حال مستنصر حسین تارڑ کے مطابق کچھ یوں ہے "سیتلا مندر کا وجود نابود کردیا گیا, بابری مسجد کے انہدام کے انتقام میں. بہت قدامت والا, محرابوں کی شکستگی اور موسموں کا مارا ہوا سیتلا مندر کا مرکزی دروازہ منہدم ہونے سے انکاری ہوگیا اور وہ اب بھی موجود ہے. اور اس کے اندر پناہ گزین ہیں, کوٹھری در کوٹھری لوگ مکوڑوں کی مانند رینگتے ہیں.. ایک حواس گم بوڑھا ہمیں اس شجر کی جانب لے گیا جو منہدم نہ ہوسکا اور اس شجر کے تنے کی بنیادوں میں کچھ بجھ چکے چراغ تھے. کچھ محرابیں, جالیاں, شکستہ دیواریں, نیلے رنگ سے رنگی ہوئی ایک محراب تھی.. آج کا سیتلا مندر گنجلک تاریک کوٹھڑیوں, گندی گلیوں اور نیم اندھیاری رہائش گاہوں کا ایک ملغوبہ ہے. ہم اس برباد شدہ مندر میں آباد شدہ محلوں اور گلیوں سے نکلے تو سیتلا مندر کے ابھی تک موجود ایک محرابی دروازے میں سے نکلے.. اس دروازے کا پھاٹک محراب دار گذرگاہ کی شکستہ دیوار کے ساتھ اب بھی اپنی سیتلا دیوی کے معبد کے مسمار ہونے پر , اگر غور کریں تو شاید اس پھاٹک کی سالخوردہ لکڑی میں پیوست جو آہنی پھولدار کوکے تھے, اُن میں سے کچھ پھولوں کی آنکھوں میں آنسو ہوں.." اس مندر کے ساتھ کئی معروف شخصیات کا تعلق بھی رہا ہے, جب کے کچھ کی تو یہ جنم بھومی ہے. مدثر بشیر صاحب نے روزنامہ ایکسپریس میں سیتلا مندر پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں اس حوالے درج ذیل احباب کا ذکر خیر کیا ہے. موسیقار کمال احمد, جمیل بسمل, رفیق ڈھول والا المعروف بھیا ڈھول والے, قوال اسلم قلندری, محمد شریف رفیع, مشہور ڈریس ڈیزائنر محمد یوسف و آصف, اور مشہور شاعر ساغر صدیقی. جبکہ شوکت علی شاہ صاحب نے نوائے وقت میں شائع شدہ اپنے ایک کالم میں تذکرہ کیا ہے کہ معروف شاعر و افسانہ نگار وقار انبالوی "نوجوانی کے دنوں میں بھیس بدل کر ایک طویل عرصے تک سیتلا مندر میں رہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی." اس عمارت کے تاریخی مندر ہونے کے علاوہ لاہور سے اور بھی کئی تعلق ہیں. اسی باعث مندر کی پرشکستہ عمارت زندہ دلان لاہور سے شکوہ کرتی نظر آتی ہے. گو کہ اب لاہور میں ہندوؤں کی تعداد خاصی کم ہے مگر یہ فقط ایک عبادت گاہ نہیں ہے, بلکہ یہ لاہور کی تاریخ و ثقافت کا ایک اہم جزو ہے. جس کا بدحال ہونا یقیناً ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے. اس کی دیکھ بھال کرنی چاہیے. خیر ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ صرف مندروں کا برا حال ہے. لاہور میں تو موجود قدیم مساجد بھی زبوں حالی کا شکار ہیں. ایسے میں کیا کہا جائے. حکومت وقت سے التجاء ہے کہ بیشتر تاریخی عمارات پر معلوماتی بورڈ موجود نہیں براہ کرم ان کا بند و بست کریں. سیتلا مندر کے باہر سے ہزاروں لوگ روزانہ گزر جاتے ہیں, اس بات کو محسوس کیے بغیر کہ یہ کس قدر اہم تاریخی ورثہ ہے. کاش کہ ہمیں اس مختصر زندگی میں وہ زمانہ دیکھنا نصیب ہو جب لاہور کی تاریخی عمارات نہ صرف بحال ہوچکی ہوں بلکہ یہ جگہیں آباد بھی ہوں. طلحہ شفیق --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 20:42، 10 دسمبر 2021ء (م ع و)
بیرونی روابط کی درستی (جنوری 2022)
ترمیمتمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،
ابھی میں نے سیتلا مندر پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:
- https://ur.freejournal.org/908647/1/%D8%B3%DB%8C%D8%AA%D9%84%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1.html میں https://web.archive.org/web/20211210204439/https://ur.freejournal.org/908647/1/%D8%B3%DB%8C%D8%AA%D9%84%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1.html شامل کر دیا گیا
نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔
As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}}
(last update: 15 July 2018).
- If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
- If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with this tool.
شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 14:41، 6 جنوری 2022ء (م ع و)